خليج فارس، مغربي قوتوں کي دوغلي سياست
ايران کے جنوب ميں واقع خليج فارس ، آبنائے ہرمز کے ذريعے، بحر عمان سے اور اس کے ذريعے، ديگر کھلے سمندروں سے منسلک ہے- خليج فارس کے شمال ميں اسلامي جمہوريہ ايران واقع ہوا ہے، جو ديگر ہمسايہ ممالک کي بہ نسبت خليج فارس سے سب سے زيادہ مشترکہ سرحد کا مالک ہے-اس کے پرانے ناموں ميں، سب سے پرانا، نارمرتوnar- marratuہے، جس کا مفہوم کڑوے پاني کا ہے- يہ نام آشوري تمدن سے باقي کتبوں ميں پايا جاتاہے-(2) ايک يوناني مورخ، فليوويوس آريانوس نے اپني کتاب ميں، اس خليج کا نام پرسيکون کااي تاس لکھا ہے، جس کا مفہوم خليج فارس ہے-(3)
خليج فارس کي جغرافيائي حدود کے بارے ميں يوں کہا جاسکتا ہے کہ اس کے تمام شمالي حصے ميں ايران کے دو صوبے ، يعني صوبہ بوشہر اور صوبہ ہرمزگان واقع ہوئےہيں - خليج فارس کے ديگر ہمسايہ ممالک ميں عراق، عمان، سعودي عرب، کويت، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرين شامل ہيں- خليج فارس اور اس کے سواحل ميں موجودہ تيل اور گيس کے ذخائر کي موجودگي اور ايران اور عرب ممالک کے ہندوستان اور ديگر ممالک کے ساتھ تجارت کے ليے ايک مناسب آبي راستہ ہونے کي وجہ سے اس کي اقتصادي، سياسي اور فوجي اہميت ميں روزبرروز بڑھتي جاتي ہے اور گذشتہ دو صديوں سے استعماري قوتيں ان سے فائدہ اٹھانے کے ليے مختلف حربے استعمال کرتے رہتےہيں-
بيسويں صدي کے نصف دوم سے يہي استعماري قوتوں اورچند ہمسايہ ممالک کے ذريعے بعض ايسي مذموم حرکتيں ديکھنے ميں آئي ہيں، جن ميں سے ايک اس سمندر کو اپنے صحيح اور تاريخي نام سے نہيں، بلکہ ايک مجعول نام سے ياد کرناہے- ان جعل سازوں ميں لعض عرب ہمسايہ ممالک پيش پيش ہيں- جبکہ اگر تمام تاريخ پر ايک محققانہ نظر ڈالي جائے تو يہ بات اظہرمنالشمس ہے کہ اس سمندر کا نام "خليج فارس" ہي ہے- مثال کے طور پر "محمد جرير طبري"اور" مسعودي" اور "يعقوبي" جيسے تمام مورخوں کے خيال ميں، خليج فارس کے اردگرد کے تمام علاقے، اسلام سے پہلے تمام ادوار ميں، ايران سے متعلق تھے- مثال کے طور پر"ابن حوقل" اپني کتاب"صورۃ الارض"ميں يوں لکھتا ہے:" جيسا کہ بارہا کہا گيا ہے، فارس کا سمندر، دنيا کے احاطہ کرنے والے محيط کا جزء ہے جو چين کے علاقے"واق واق"کے شہر سے منقسم ہوتا ہے- يہ سمندر سندھ اور کرمان سے فارس تک پھيلا ہوا ہے اور تمام ممالک ميں پارس کہلاتا ہے- کيونکہ يہ ملک تمام ممالک سے ترقي يافتہ ہے اور اس کے بادشاہ ازمنہ قديم سے سب سے زيادہ تسلط کے مالک تھے- حتي کہ آج کل بھي، اس سمندر کے دور و نزديک کے کنارے اور پارس کے تمام علاقے ان کے قابو ميں ہے-" يہ تو قديم دور ہے ، بيسويں صدي ميں ساٹھ کي دہائي تک بھي، اکثرعربي ممالک اپنے سرکاري خطوط ميں، اس علاقے سے مربوط امور ميں "خليج فارس" کا نام استعمال کرتے تھے-
اخير کے چند سالوں سے اور خاص طور پرساٹھ کي دہائي کے بعد، خليج فارس کوعرب سے منسوب کرنے کا نام، بعض عربي ممالک اور عرب حکومتوں کي زير نگراني تنظيموں اور اداروں ميں وقتافوقتا نظر آتا ہے، جس کي پيچھے عربوں کي ہٹ دھرمي اور مبينہ تاريخي ثبوتوں کو نظر انداز کرنے کے علاوہ کوئي دوسري حقيقت موجود نہيں- البتہ اکثر اوقات يہ بھي ديکھنے ميں آيا ہے کہ خود عرب ممالک ميں ايسي کتابيں شائع کي جاتي ہيں جن ميں "خليج فارس "کا تاريخي نام اوران کتابوں کے اندر دنيا کے تمام نقشوں اور تاريخي اسناد ميں يہي نام ديکھاجا سکتا ہے- مثال کے طور پر 1992ء ميں کويتي سرکار نے "الکويت في خرائحالعالم"کے نام سے ايک ايسي کتاب شائع کي جس ميں 80نقشے اور تاريخي اسناد موجود ہيں، جن ميں سے ہر ايک ميں "خليج فارس" کا نام موجود ہے- اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ ممالک کے بعض حقيقتپسند محققين اب بھي اپني تحقيقات ميں، "خليج فارس" کا نام استعمال کرتے ہيں- ان سب باتوں کے باوجود مغربي ممالک کے حکام اپني ديگر شيطاني اور دوغلي سياستوں کے ساتھ ساتھ ، اکثر ايشيائي اور افريقائي ممالک ميں تفرقہ ڈالنےاور اپنے مفادات کے تحفظ کے ليے،خبيثانہ چال چلتے ہيں ، جن ميں سے ايک ، "خليج فارس "کے قديم اور تاريخي نام کو تبديل کرکے عربي نام سے موسوم کرنا ہے- اس ضمن ميں فرانس ميں چھپي ہوئي ايک لغت Le Petit Robert des noms propres (robert the small dictionary of proper names)کا نام ليا جاسکتا ہے جس کي پہلي اشاعت اور جديد اشاعت ميں، خليج فارس کے بارے ميں الگ الگ نظريے ملتے ہيں-
اس کي پہلي اشاعت 1975ء ميں منظر عام پر آئي- 2010ء ميں کچھ "بنيادي اصطلاحات اور اضافات"کے ساتھ اس کي نئي طباعت ہوئي- اس کتاب کے اندر 2010ء کي تاريخ اور اس کي جلد پر 2011ءکي تاريخ درج ہے- جيسا کہ کہا گيا ،اس نئي طباعت ميں "خليج فارس" اور اس کے اردگرد کے ممالک اور شہروں اوراس کے جزائر کے بارے ميں کچھ خودغرضي پر مبني اطلاعات بہم پہنچائي گئي ہيں- تہران يونيورسٹي کے ايک استاد، جناب ڈاکٹر طہمورث ساجدي نے، ان دونوں طباعتوں کے تقابل اور مطالعے سے کئي ايسي باتوں کا کھوج لگايا ہے-انہوں نے اپني تحقيق کا نتيجہ ايک مضمون کي شکل ميں ايراني اخبار "اطلاعات"(20فروري،2012ء کاشمارہ) ميں شائع کرليا ہے-اس مضمون کا ملخص ذيل ميں پيش خدمت ہے:
"در اصل ايران ميں اسلامي جمہوريہ طرزحکومت کي برقراري کے بعد، فرانس ميں ، علاقے کي عرب ممالک کي دوستي جتانے اور ان کے ساتھ دينے کے ليے، مسلّمہ تاريخي حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے، مسلسل "خليج فارس"کا اصيل جغرافيائي نام ، تغيير و تبديل کا شکار رہاہے-حيران کن بات يہ ہے کہ اس لغت کي اشاعت2011 ءميں، کسي ايرانيات کے فرانسوي ماہر کے ہاتھوں نہيں،بلکہ ايک ايراني شخص کے ہاتھوں يہ کام پايہ تکميل تک پہنچاہے- اس پر مزيد اس ناشر نے ، فرانس ميں ايرانيات کے مطالعے کے 240سالہ نتائج کو نظر انداز کرتے ہوئے ، perse (پارس)کے لفظ کےذيل کي وضاحت کو، جو ايران کے بارے ميں اطلاعات کے طالب لوگ اس کي طرف رجوع کرکے اس کا مطالعہ کرتے ہيں،چار سطروں ميں خلاصہ کرکے،IRAN کے لفظ کےذيل، مزيد اطلاع حاصل کرنے کے ليے کہاگيا ہے- ذيل ميں اس کتاب کي دونوں 1975ء اور 2011والي طباعتوں کا مقابلہ اور ان دونوں ميں خليج فارس کے بارے ميں تضادات کي کچھ مثاليں پيش خدمت ہيں- ان کےمطالعے سے فرانس ميں ايران کے خلاف منفي عزائم اور دوغلي سياستوں کا بخوبي پتہ چل سکتا ہے- ذيل ميں ترتيب کے ساتھ پہلے اس کتاب کي 2011ء والي طباعت کا اور پھر 1975ء والي طباعت ميں مختلف اندراجات کا ذکر ہوگا:
1- 2011ء والي طباعت کے صفحہ نمبر2 ميں يوں لکھا گيا ہے کہ شاہ عباس کبير نے ايران کي بالا دستي کو "خليج عرب وفارس" ميں برقرارکيا اور 1975ء والي طباعت کے صفحہ نمبر2 ميں صرف"خليج فارس" درج ہے-
2- 2011ء والي طباعت کے صفحہ نمبر6 ميں يوں لکھا گيا ہے کہ ابوظبي "خليج عرب وفارس" ميں واقع ہوا ہے -ليکن 1975ء والي طباعت کے صفحہ نمبر6 ميں صرف"خليج فارس" درج ہے-
3- 2011ء والي طباعت کے صفحہ نمبر112ميں "عربستان"(جزيرہالعرب)کے ذيل ميں يوں لکھا گيا ہے کہ يہ علاقہ مشرق کي طرف سے "خليج عرب وفارس" ميں ---تک محدود ہے؛ ليکن 1975ء والي طباعت کے صفحہ نمبر112 ميں صرف"خليج فارس" درج ہے- اس کے ساتھ ساتھ اسي طباعت ميں عباسي خاندان کے ذيل ميں پھر "خليج فارس" کا نام آيا ہے-
4- 2011ء والي طباعت کے صفحہ نمبر140 ميں، جہاں براعظم ايشيا کا مصور نقشہ پيش کيا گيا ہے، "خليج عرب وفارس" درج ہے ، حالاں کہ 1975ءوالي طباعت کے صفحہ نمبر115 ميں، اس نقشے کے وضاحت ميں صرف"خليج فارس" درج ہے-
5- 2011ء والي طباعت کے صفحہ نمبر477ميں،"شحالعرب"(دريائے اروند)کے بارے ميں يوں لکھا گيا ہے کہ يہ دريا، عراق ميں بہتاہے جو "خليج عرب و فارس"جاکر گرتاہے- اس کے بعد يوں لکھا گيا ہے کہ "کچھ عرصے سے شحالعرب" کا علاقہ، ايران و عراق کے درمياں متنازعہ علاقہ ہے اور حتي کہ ان دنوں ممالک کے درمياں 1988ء-1980ء تک کے عرصے ميں ، ايک خوں ريز جنگ چھڑي-" جبکہ 1975ءوالي طباعت کے صفحہ نمبر119ميں، "عراق"کے ذيل ميں يوں لکھاگيا ہے کہ چون کہ اس ملک نے اپنے آپ کو ايک "اسلامي انقلاب" کي زد ميں ديکھا ، اس ليے ايران پر حملہ کرديا- "
مذکورہ مثاليں در اصل مشتے نمونہ خروار کے طور پر پيش کي گئي ہيں- اس کتاب کي جديدترين اشاعت ميں خليج فارس کے اردگرد تمام علاقوں اور ممالک اور شہروں کے ذيل، جہاں ان کي جغرافيايي حدود کے بارے ميں بات ہوئي ہے، "خليج عرب و فارس"لکھا گيا ہے-جبکہ اس کتاب کي 1975ء والي طباعت ميں صرف" خليج فارس" لکھا گيا ہے- محترم محقق نے کئي ايسي مثالوں کا ذکر کيا ہے، جہاں فرانس اور اس کے ہمسايہ ممالک کے درمياں متنازعہ علاقوں کے بارے ميں ، ان اختلافات کي طرف کوئي اشارہ نہيں ہوا ہے اور اس کتاب کے مؤلفوں نے فرانس کے مفادات کي حفاظت ميں کوئي کسر نہيں اٹھارکھي ہے-
بشکریہ : ڈاکٹر علی بیات