• صارفین کی تعداد :
  • 3057
  • 2/29/2012
  • تاريخ :

بچوں کي مشکلات کو کيسے کم کريں ؟ (حصّہ سوّم )

بچے

اچھے نظم و ضبط

اچھے نظم و ضبط کو  اختيار کريں اور اپنے بچوں سے اچھے تعلقات قائم کرنے کے ليۓ ان کي باتوں اور مشوروں کو اہميت ديں -

مندرجہ ذيل باتوں کا خيال رکھيں -

* بچے کي ہر اچھي بات  اور اچھے کام پر اسے شاباش ديتے ہوۓ اس کي حوصلہ افزائي کريں  -

* بچوں کي   چھوٹي موٹي غلطيوں اور ناراضگي  کو نظرانداز کريں -

*  اگر کسي وقت بچے کو سختي سے سمجھانا پڑے تو ايسے وقت کا انتخاب کريں جب اسے  خود پر پورا کنٹرول ہو  اور غصّے کي حالت ميں کوئي خطرناک حرکت سرزد ہونے کا انديشہ نہ ہو -

* يہ بھي ممکن ہے کہ آپ کي سختي اور سمجھانے کے بعد بھي بچے سے دوبارہ کوئي خطا ہو جاۓ تو وہ اس خوف ميں مبتلا رہے گا کہ  آپ پھر سے اسے ڈانٹيں گے - ايسے حالت ميں بچوں کے ذہن ميں يہ بات اچھي طرح سے بيٹھ جاۓ گي کہ کون کا کام اچھا ہے اور کونسا برا -

*  اپنے آپ کو اپنے بچے کي جگہ پر رکھ کر سوچيں کہ جب آپ بچے تھے تو آپ کي سوچ کيا تھي - کن چيزوں کو اہميت ديتے تھے اور مختلف مواقع پر مختلف باتوں کے بارے ميں آپ کس انداز سے سوچتے تھے   اور اس وقت بڑوں کي  دنيا ميں آپ کو کس حد تک دلچسپي تھي -

اگر آپ ہر روز عادي طور پر بچوں کي مدد کريں تو انہيں احساس تحفظ اور دلي اطمينان ملنا شروع ہو  جاۓ گا اور ايک خاص طريقے  سے  کام کي انجام دھي سے بچوں کے ساتھ آپ کے تعلقات خراب ہونے کا نتاسب بہت حد تک کم  ہو جاتا ہے - مثال کے طور پر يہ بات بچوں کي زندگي کا معمول بن جاۓ کہ  رات کا کھانا کھانے کے بعد مسواک کرني ہے اور مقررہ وقت پر جا کر سو جانا ہے -

* بچوں پر معقول پابندياں لگائيں -  اگر بچوں کو اس بات کي اجازت مل جاۓ کہ وہ اپني مرضي کے کام انجام ديں تو بہ ندرت ہي انہيں امنيت کا احساس ہو گا - والدين کو حقيقت پسندي سے کام لينا چاہيے - بعض اوقات ايسا بھي ہوتا ہے کہ والدين اپنے بچوں کي معمولي شرارتوں کو بےادبي اور نافرماني کا نام دے ديتے ہيں جبکہ وہ بچوں کي رشد کا ايک طبيعي عمل ہوتا ہے -

تحرير : سيد اسداللہ ارسلان

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان