سيدالشہداء کے لئے گريہ و بکاء کے آثار و برکات1
گريہ، بکاء يا رونا انساني احساسات و جذبات کا شديدترين مظہر ہے اور اس کے اسباب و محرکات مختلف ہيں اور ہر محرک اور ہر سبب ايک خاص حالت کو نماياں کرتا ہے- روايات و احاديث ميں گريہ کي بعض اقسام کو ممدوح قرار ديا گيا ہے اور پاکدل بندوں کي پسنديدہ صفات ميں شمار کيا گيا ہے اور اس کي بعض قسموں کي مذمت کي گئي ہے-
گريہ انسان کے حالات اور انفعالات ميں سے ہے جو دکھ، صدمے اور نفسياتي اندوہ کے نتيجے ميں فطري طور پر ظہور پذير ہوتا ہے؛ اور کبھي ہوسکتا ہے کہ بعض شديد جذباتي کيفيت اور نفسياتي ہيجان کے نتيجے ميں ظہور پذير ہوجائے؛ مثال کے طور پر انسان اپنے محبوب کو ايک عرصہ دوري اور فراق کے بعد ديکھ لے اور ديدار کا شوق گريہ و بکاء کا سبب بن جائے اس کو گريۂ شوق بھي کہا جاتا ہے- کبھي گريہ انسان کے مذہبي عقائد کي بنا پر ظہور پذير ہوتا ہے اور وہ يوں کہ چونکہ گريہ ايک طبيعي اور اکثر اوقات غير ارادي قعل ہے لہذا گريہ کے اوپر امر و نہي اور حسن (اچھائي) اور قبح (برائي) کے احکامات جاري نہيں کئے جاسکتے بلکہ جس چيز پر حسن و قبح اور اچھائي اور برائي کا نشان لگايا جاسکتا ہے يا ان کا حکم ديا جاسکتا ہے يا ان سے روکا جاسکتا ہے وہ گريہ کے مقدمات و تمہيدات ہيں جيسا کہ کہا گيا ہے کہ "تو وہي ہے جس کي قيد ميں ہو"-
يہاں ہم جاننا چاہتے ہيں کہ سيدالشہداء (ع) کے لئے گريہ و بکاء کا حکم کيا ہے اور اس کے اثرات اور برکات کيا ہيں؟ بہتر يہي ہے کہ ہم يہاں رونے کي اقسام کا جائزہ ليں تا کہ معلوم ہوجائے کہ امام حسين عليہ السلام کے گريہ و بکاء کا حکم کيا ہے اور اس کے آثار کيا ہيں؟
تحریر : ف ح مهدوی
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
حسين ع کي تحريک، رہنمائے انسانيت (حصّہ دوّم)