• صارفین کی تعداد :
  • 3429
  • 2/13/2012
  • تاريخ :

شيعيت کو نابودي سے بچانے کيلئے امام جعفر صادق کا اقدام

امام جعفر صادق

 عيسائي مذاہب ميں تفرقہ اندازي جو ناسوت اور الاھوت کي پيدوار ہے وہ اتوس پہاڑ پر واقع عيسائي راہبوں کي (بلحاظ مذہب) خانقاہوں کي حالت کشمکش ہے -

يونان ميں سالونيک نام کي ايک رياست ہے اور سالونيک کے مشرق ميں تين جزيرے ہيں ان ميں جو جزيرہ مشرق کي سمت ميں ہے اس کا نام کوہ اتوس يا جزيرہ اتوس ہے اس کوہ اتوس پر مختلف مراتب کي خانقاہيں ہيں جن ميں پہلے درجے ميں بيس ہيں دوسرے ميں بارہ ‘ تيسرے ميں دو چار اور چوتھے ميں دو سو پينسٹھ خانقاہيں ہيں -

قديم زمانوں سے يہ کوہ اتوس ان آرتھوڈ کسي عيسائيوں کي پناہ گاہ رہا ہے جو دنيا ترک کرنا اور ساري عمر عبادت ميں مشغول رہنا چاہتے تھے - کوہ اتوس کي تمام خانقاہيں آرتھوڈ کسي مذہب کي ہيں پہلي جنگ عظيم کے بعد جب روس ميں بالشويکي حکومت بر سراقتدار آئي تو کوہ آتوس کي خانقاوں کے سارے عطيات کو زبردستي ضبط کر ليا اور مشرقي يورپ کے تمام ممالک ميں يہ خانقاہيں عطيات کي حامل تھيں - دوسري جنگ عظيم کے بعد مشرقي حکومتوں ميں تبديلي آئي اور ان ممالک ميں کوہ آتوس کے عطيات بھي قومي ملکيت قرار دے ديئے گئے اور آج کوہ اتوس کے عطيات وہي ہيں جو يونان او ترکي کے يورپي حصے ميں ہيں پہلے جنگ عظيم کے بعد يہ وقف شدہ املات روس ميں بسنے والے راہبوں کے ہاتھوں سے چلي گئي تھيں -

پھر بھي ان خانقاہوں کي اتني آمدن تھي کہ تقريبا پندرہ ہزار راہب اس پر گزر بسر کرتے اور تقريبا پندرہ سو خدمت گزار جو راہبوں کے لباس اور جوتے وغيرہ سيتے ‘ غذا تيار کرتے اور ان کے لباس دھوتے اس آمدن پر گزر بسر کرتے تھے -

ليکن آج کوہ اتوس کي يہ خانقاہيں ان وسائل سے محروم ہيں اور راہبوں کي تعداد بھي بہت کم ہے کوہ اتوس کيخواص ميں سے ايک خاصيت يہ بھي ہے کہ عورت کا وہاں پر وجود نہيں ہے اور دراصل عورت کوہ اتوس کي خانقاہوں ميں گئي ہي نہيں اور کسي بھي دستاويز کي رو سے عورت ‘ جوان ہو يا بوڑھي ‘ ان خانقاہوں ميں نہيں جا سکتي اگر کوئي راہب عالم نزاع ميں ہو اور اسکي بوڑھي ماں چاہے کہ آخري لمحات ميں اپنے بيٹے کو ديکھے تو اسے بھي ہر گز ان خانقاہوں ميں جانے کي اجازت نہيں ملتي اور صرف وہ اپنے بيٹے کا تابوت جس ميں اس کا جسد خاکي پڑا ہوتا ہے خانقاہ کے باہر ديکھ سکتي ہے -

دوسري جنگ عظيم تک کوہ اتوس کي خانقاہوں کا برقي رو کے ذريعے روشن ہونا تھا مزيد لباس کي حالت يا گھريلو اثاثے اور لباس وغيرہ کے لحاظ سے ) پہلي صدي عيسوي کے لوگوں سے ملتا جلتا تھا اور دوسري جنگ عظيم کے بعد راہبوں کي زندگي ميں ايک بڑي تبديلي رونما ہوئي وہ تبديلي ‘ خانقاہوں کا برقي رو کے ذريعے روشن ہونا تھا -

مزيد لباس کي حالت يا گھريلو اثاثے کے لحاظ سے خانقاہوں ميں کوئي تبديلي رونما نہيں ہوئي اگر ان خانقاہوں کے راہب ‘ باہر کي دنيا سے باخبر ہوتے اور اپنے زمانے کے واقعات کي تاريخ رقم کرتے تو آج سب سے حقيقي تاريخ کوہ اتوس کي خانقاہوں ميں ملتي ان خانقاہوں کے قيام کو چودہ صدياں ہو چکي ہيں ليکن ابھي تک بيروني دنيا کے بارے ميں ايک چھوٹي سي کتاب بھي نہيں ملتي اور آج جبکہ ان خانقاہوں کو بجلي کے نظام سے متصل کر ديا گيا ہے پھر بھي ان تمام خانقاہوں ميں سے سترہ خانقاہيں ايک ہي فرقے کي ہيں پھر بھي ايک خانقاہ ميں تبديل نہيں ہو سکيں کيونکہ ناسوت اور لاھوت کے لحاظ سے ان ميں اختلاف پايا جاتا ہے کوہ اتوس پر دو يوناني خانقاہيں ايسي نہيں ملتيں جن کے راہب عيسي کي بشري ماہيت اور خدائي ماہيت کے بارے ميں آپس ميں متفق ہوں -

يہ اختلاف جس طرح کوہ اتوس کي درجہ اول کي خانقاہوں ميں پايا جاتا ہے اسي طرح اس پہاڑ کے درجہ دوم کي بارہ خانقاہوں ميں بھي پايا جاتا ہے چونکہ چودہ صدياں گزر جانے کے باوجود بھي ان خانقاہوں کا بيروني دنيا کے ساتھ رابطہ نہيں ہے لہذا فرانسيسي ٹيليويژن کے 1969ء کے معلومات عامہ کے مقابلے ميں جن دانشوروں نے شرکت کي وہ کوہ اتوس کے درجہ اول کي پانچ خانقاہوں کے نام بھي نہيں بتا سکے - چہ جائيکہ وہ درجہ اول و دوم کي تمام خانقاہوں کے نام بتاتے -

کوہ آتوس پر پہلي آرتھوڈ کسي خانقاہ چھٹي صدي عيسوي ميں وجود ميں آئي يہ ايک يوناني خانقاہ تھي ‘ جن راہبوں نے اسے تعمير کيا انہوں نے اس خيال سے اس جگہ کو منتخب کيا کہ يہ ايک سنگلاخ پہاڑ تھا جو گہري واديوں پر مشتمل دريا کے قريب اور آباديوں سے دور تھا يہ مقام ان لوگوں کے رہنے سہنے کيلئے انتہائي مناسب تھا جو ساري عمر انسانوں سے دور رہنا اور عبادت کے سوا کوئي دوسرا کام نہ کرنا چاہتے ہوں اس کے بعد تمام آرتھوڈ کسي مذاہب کي خانقاہيں اسي کوہ آتوس پر بنني شروع ہوئيں اور درجہ اول کي بيسويں خانقاہ روسي آتھوڈ کسي فرقہ کے راہبوں نے اٹھارہويں صدي عيسوي ميں بنائي آج جبکہ پہلي خانقاہ کو تعمير ہوئے چودہ صدياں گزر چکي ہيں ان خانقاہوں ميں عيسي کي ناسوتيا ور لاہوتي فطرت کے بارے ميں اختلاف جوں کا توں ہے -

کہا جاتا ہے کہ جس وقت سلطان محمد دوم ملقب بہ فاتح ‘ نے قسطنطنيہ کا محاصرہ کيا تو اس شہر کے راہب بجائے اس کے کہ شہر کے دفاع کيلئے اقدامات عمل ميں لاتے ‘ عيسي کي ناسوتي اور لاہوتي ماہيت کے بارے ميں بحث کر رہے تھے بعض لوگوں نے اس روايت کو مذاق قرار ديا ہے اور کہا ہے کہ عقل اس بات کو تسليم نہيں کرتي کہ قسطنطنيہ کے کليسا کے راہب شہر پر حملے کے خطرے کو نظر انداز کرکے عيسي کي ناسوتي اور لاہوتي ماہيت کے بارے ميں بحث ميں مبتلا ہوں ليکن اس روايت کو جھوٹا س لئے قرار نہيں ديا جا سکا کہ آرتھوڈ کسي کليسا ميں عيسي کي لاہوتي اور نا سوتي فطرت کے بارے ميں مسلسل بحث ہوتي ہے لہذا يہ بعيد نہيں ہے کہ جب سلطان محمد نے چند ماہ کيلئے قسطنطنيہ کا محاصرہ کيا تھا تو شہر کے راہب پھر اسي موضوع پر تبادلہ خيالات کر رہے ہوں گے -

جو کچھ ہم نے کوہ آتوس کي خانقاہوں کے بارے ميں کہا ‘ اس سے ہمارا مقصد عيسائيت ميں عيسي کے ناسوت يا لاھوت ہونے کے بارے ميں اختلاف کي تائيد کرنے کے علاوہ يہ بھي بيان کرنا ہے کہ شيعہ مذہب کو زوال سے بچانے کيلئے جعفر صادق کون سا قدم اٹھايا ؟ دوسري صدي ہجري کے پہلے پچاس سالون ميں مسلمانوں ميں رھبانيت کي جانب ميلان پيدا ہوا - دوسري صدي ہجري کا پہلا نصف اور دوسرا نصف عرصہ وہ زمانہ ہے جس ميں مسلمانوں ميں بہت سے فرقوں نے جنم ليا اور تيسري صدي تک يہ عمل جاري رہا - دوسري صدي ہجر کے پہلے اور دوسري نصف عرصے ميں جنم لينے والے فرقوں کا ايک گروہ رھبانيت کي طرف مائل تھا ان فرقوں کے بانيوں کا عقيدہ تھا کہ آدمي معمول کي زندگي کو ترک کرکے اپني تمام عمر گوشہ تنہائي ميں گزار دے -

انہوں نے انسان کے فرائض کو مختل اقسام کے اعتکاف ميں متعين کر ديا تھا ان ميں سے بعض کہتے تھے جب انسان اعتکاف ميں بيٹھے تو اسے چاہيے کہ تمام اوقات نماز کي ادائيگي ميں مشغول رہے کيونکہ اسلام ميں نماز سے بڑھ کر کوئي عبادت نہيں -

بعض کا عقيدہ تھا کہ روزہ رکھنا نماز سے افضل ہے لہذا جو کوئي اعتکاف ميں بيٹھے اسے ساري عمر روزہ سے رہنا چاہيے -

ان سے ذرا ماڈرن فرقے کے بعض بانيوں کا کہنا تھا کہ انسان جب معتکف ہو جائے تو اسے صرف خداوند تعالي کے بارے ميں غورو خوض کرنا چاہيے کيونکہ سب سے افضل عبادت خداوند تعالي کے بارے ميں غورو فکر ہے يہ سب فرقے رھبانيت کا شوق دلاتے تھے بلکہ تاکيد بھي کرتے تھے ليکن ان ميں سے کوئي بھي اپنے پيروکاروں کے معاش کے بارے ميں فکر مند نہ تھا کيونکہ ان کا خيال يہ تھا کہ جو لوگ معتکف ہوں گے ان کي معاش کا بندوبست اوقاف کے ذريعے کيا جائے گا اور اس ميں کوئي شک نہيں کہ عيسائيت کي خانقاہوں کي مثال ان کے مد نظر تھي -

جب انہوں نے ديکھ ليا کہ وہ خانقاہيں اوقاف کي حامل ہيں لہذا ہمارے جو لوگ معتکف ہو جائيں گے ان کيلئے بھي اوقاف سے بندوبست ہو جائے گا شيعہ بھي دوسرے اسلامي فرقوں کي مانند رہبانيت کي طرف مائل ہوئے خصوصا وہ لوگ جن کي فطرت ميں رہبانيت ہوتي ہے اور وہ زندگي ميں کام کرنا نہيں چاہتے ان کيلئے ترک دنيا کا يہي بہانہ کافي تھاي -

جعفر صادق نے شعيوں اور دوسرے مسلمانوں کي رھبانيت کي شديد مخالفت کي - جعفر صادق علم تھا کہ اگر رھبانيت کا نظريہ شيعہ ميں مضبوط ہو گيا تو يہ فرقہ نابود ہو جائے گا خاص طور پر اس زمانے کي بني اميہ کي حکومتيں بھي شيعوں کي مخالف تھيں اور کبھي تو وہ اپني مخالفت کا بر ملا اظہار بھي کرتے تھے ايسي صورت ميں ہم اندازہ لگا سکتے ہيں کہ شيعوں کي غفلت ان کيلئے کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتي تھي -

بني اميہ چاہتے تھے کہ شيعہ ‘ دنيا کو ترک کرکے معتکف ہو جائيں اس طرح وہ بيروني دنيا سے اپنا رابطہ منقطع کر ليں تاکہ باہر سے کوئي ان سے رابطہ نہ رکھے اور وہ تبليغ کے ذريعے شيعہ مذہب کو نہ پھيلا سکيں - بني اميہ جانتے تھے کہ شيعہ جب دنيا سے ہاتھ دھو ليں گے اور تمام عمر ايک عبادت گاہ ميں گزاريں گے تو کچھ عرصے بعد خود بخود ختم ہو جائيں گے -

چونکہ خانقاہ ‘ کليسا کي مانند نہيں ہوتي اس ميں کليسا کي مانند مذہبي تبليغ کے وسائل بھي مہيا نہيں ہوتے -

کليسا مزہبي سرگرميوں کا مرکز ہوتا ہے اور کليسا کے نام پر جہاں کہيں کوئي مرکزي مذہبي تنظيم وجود ميں آتي ہے تو اس کا واضح مقصد مزہب کا فروغ ہوتا ہے جو افراد کسي مذہب کے مرکزي انسٹيٹيوٹ ميں کام کرتے ہيں وہ ان رضا کاروں کي مانند ہوتے ہيں جو مزہب کو تقويت پہنچانے اور اس کے فروغ کيلئے جنگ لڑتے ہيں چونکہ جو شخص کسي مقصد کيلئے جدوجہد کرتا ہے اسے اس کا نتيجہ ملتا ہے لہذا يہ لوگ جو مذہب کيلئے جنگ لڑتے ہيں انہيں بھي ان کے مساعي کا پھل ملتا ہے ليکن جو شخص خانقاہ ميں گوشہ نشين ہو جاتا ہے وہ شکست خوردہ ہوتا ہے اور جنگ و جہاد کو ايک طرف رکھ ديتا ہے -

خانقاہ ميں گوشہ نشيني کي وجوہات مختلف ہو سکتي ہيں ليکن يہ بات عيان ہے کہ جو کوئي خانقاہ ميں گيا وہ اب مجاہد نہيں رہا وہ جہاد کو ترک کرکے ساري عمر کيلئے ايک ہي ڈھنگ کي زندگي گزارنا چاہتا ہے - خصوصا شيعوں کو بني اميہ جن کے خون کے پياسے تھے - جعفر صادق جانتے تھے کہ اگر اس مذہب کے کچھ لوگوں کو کسي خانقاہ ميں عبادت کيلئے معتکف کيا جائے تو يہ مذہب کيلئے ہر گز سود مند نہيں ہو گا اس طرح مذہبي اشاعت رک جائے گي -

انہيں اس بات کا بخوبي علم تھا کہ اگر شيعوں نے اعتکاف کے مراکز کي جانب رخ کر ليا اور وہاں گوشہ نشين ہو کر اپني تمام عمر نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے ميں صرف کرنے لگے تو شيعہ مذہب جسے بنو اميہ کي دشمني کا سامنا ہے نابود ہو جائے گا اگر بنو اميہ شيعوں کي مخالفت نہ بھي کرتے اور شيعہ آباديوں سے دور افتادہ علاقوں ميں معتکف ہو جاتے تو چونکہ مذہب کي اشاعت و تبليغ کيلئے کوئي بھي مجاہد باقي نہ رہتا اس لئے يہ مزہب خود بخود ختم ہو جاتا بعض لوگوں کا خيال ہے کہ اعتکاف کي فکر اور خانقہ ميں بسر کرنے کا رجحان صرف عيسائيوں ميں پيدا ہوا ہے -

اس سے پہلے دنيا سے ہاتھ دھو کر ساري عمر ايک عبادت گاہ ميں گزارنے کا تصور نہيں ملتا - عيسائيت سے پہلے دوسرے مذاہب ميں عبادت گاہيں موجود تھيں - اور ان ميں سے ہر ايک ميں متعلقہ مذہب کے جاننے والے لوگ بھي رہتے تھے ان عبادت گاہوں کے اوقاف بھي ہوتے تھے جس طرح قديم مصر ميں زرعي جائيدادوں کا بڑا حصہ عبادت گاہ کي ملکيت ہوتا تھا -

ليکن اس عبادت گاہ ميں رہنے والے تارک الدنيا شمار نہيں ہوتے تھے بلکہ انہيں خدام مذہب کہا جاتا تھا اور ديکھا گيا کہ وہ اپنے مذہب کي طرف داري ميں جنگ لڑتے اور قتل ہو جاتے تھے اعتکاف ميں بيٹھنے اور دنيا سے ہاتھ دھونے کي فکر دراصل ہندوانہ فکر ہے قديم ہندوستان ميں يہ رواج تھا کہ جب کسي کے بيٹے جوان ہو جاتے تو وہ باپ اپنے کنبے کي کفالت سے دستبردار ہوتے ہوئے معاشرے سے الگ تھلگ ہو کر جنگل کي راہ ليتا تھا اور اپني باقي ماندہ زندگي کو تنہائي ميں وہيں گزار کر اس جہاں فاني سے کو کر جاتا تھا -

يہي سوچ عيسائيت ميں داخل ہوئي اور رومي حکومت کے عيسائيوں پر مظالم شايد اس سوچ کو تقويت دينے کا سبب بنے ‘ اس طرح چند عيسائي گروہوں نے اس دنيا سے ہاتھ دھو کر خانقاہوں ميں گزر بسر کرنے کي ٹھاني اور بعض کا خيال ہے کہ عيسي کي تعليمات کا بھي اس ميں اثر ہے کيونکہ ان تعليمات ميں اس دنيا سے زيادہ اخروري دنيا کي جانب توجہ دي گئي ہے - اس زمانے ميں يعني دوسري صدي ہجري کے آغاز ميں مسلمانوں نے نہ صر ف رھبانيت کي طرف توجہ دي جس کي جعفر صادق نے سختيس ے مخالفت کي تھي بلکہ عيسائيت کي ايک اور رسم بھي جسے بپتسمہ يا غسل دينا کہا جاتا ہے کي طرف متوجہ ہو گئے -

چونکہ مسلمانوں کا اس زمانے ميں صرف آرتھوڈ کسي مذہب کے پيروکاروں سے رابطہ تھا جو غسل دينے کي اس رسم کو اس طرح ادا کرتے تھے جس طرح اس مذہب کے پيروکار ادا کرتے تھے يعني بچے کي پيدائش کي بيسويں اور چاليسويں دن کے درمياني عرصے ميں اسے مسجد لے جا کر ننگا کرکے طشت ميں بيٹھا ديتے اور پھر طشت کو پاني سے بھر ديتے تھے -

پھر بچے کو اس طرح بٹھاتے تھے کہ اس کا چہرہ مشرق کي طرف ہوتا اور ايک مرد اور ايک عورت بچے کے دونوں جانب دائيں اور بائيں ہو جاتے اور مرد کو سوتيلا باپ اور عورت کو سوتيلي ماں قرار ديا جاتا پھر وہ بچے کا نام تجويز کرنا چاہتے اسے زبان پر لاتے جو آدمي مسجد کا متولي ہوتھا وہ جواب ديتا کيونکہ بچہ بولنے سے قاصر ہوتا وہ جواب ميں کہا ميں ايمان لايا ہوں ‘ دوسري مرتبہ پھر مسجد کا متولي بچے کا نام زبان پر لاتا اور کہتا کيا تو محمد پر ايمان لايا ہے ؟ اس دفعہ سوتيلي ماں جوابا کہتي ميں ايماني لائي ہوں پھر وہي متولي خوشبودار تيل کے چھوٹے سے برتن سے تيل اپني انگلي پر لگاتا اور بچے کي پيشاني اور دو رخساروں پر ملتا اسي طرح دوبارہ انگلي کو تيل ميں ڈبو کر اس کے سينے اور پيٹھ پر ملتا پھر اپنے دو ہاتھوں سے بچے کو پيٹھ سے پکڑ کر اوپر اٹھانے کے بعد پاني ميں ڈبوتا اور فورا باہر نکالتا تاکہ پاني اسے ضرر نہ پہنچائے يہ عمل دو مرتبہ دھراتا اس کے بعد وہ سوتيلا باپ اور ماں بچے کو سفيد لباس زيب تن کرواتے اور اس طرح بپتسمہ کي يہ رسومات ختم ہو جاتيں -

اس قسم کي رسومات آرتھوڈ کسي مذہب ميں رائج تھيں اور کيتھولک ان رسومات کے دوران لاطيني زبان ميں دعائيں پڑھتے اور بچے کو صرف سينے تک پاني ميں ڈبوتے جبکہ بچے کي گردن اور سر کو پاني سے باہر رکھتے ليکن جيسا کہ ہم نے عرض کيا ہے کہ مسلمانوں کا اس وقت تک کيتھولک فرقے کے ساتھ رابطہ نہ تھا اور صرف آرتھوڈکس سے رابطہ رکھتے تھے اور صاف ظاہر ہے کہ تعميد کي رسومات آرتھوڈکس کي مانند انجام ديتے تھے امام جعفر صادق نے جس طرح رہبانيت کي شديد مخالفت کي اسي طرح بپتسمہ کي بھي مخالفت کي ‘ ہميں معلوم ہے کہ وہ عيسائيت کي تاريخ سے بخوبي واقف تھے انہيں علم تھا کہ بپتسمہ کي رسم کس طرح عيسائيت ميں داخل ہوئي -

جعفر صادق مسلمانوں سے فرماتے تھے آج آرتھوڈ کسي عيسائيوں کو بھي علم نہيں کہ بپتسمہ کے دوران ميں بچے کا رخ مشرق کي طرف کيوں موڑتے ہيں اس کي وجہ يہ ہے کہ عيسائي مذہب شروع ميں انطاکيہ ميں کافي طاقت پکڑ گيا اور عيسي کے پيروکار اس جگہ بپتسمہ کے دوران بچے کا رخ مشرق کي جانب رکھتے تھے کيونکہ بيت المقدس ‘ انطاکيہ کے مشرق ميں واقع ہے آج ايران کے عيسائي بھي بچے کا رخ مشرق کي جانب رکھتے ہيں حالانکہ بيت المقدس ايران کے مغرب ميں واقع ہے- جعفر صادق شيعوں اور دوسرے اسلامي فرقوں سے فرماتے تھے ميں نہيں سمجھتا کہ بپتسمہ کے دوران بچے پر تيل ملنے کي رسم جو عيسائيوں ميں رائج ہے دوسري قوموں سے عيسائيت ميں داخل ہوئي ہے کيونکہ ہم مسلمانوں ميں بھي بعض ايسي رسومات ہيں جو دوسري مذاہب سے اسلام ميں داخل ہوئي ہيں -

ليکن پيغمبر اسلام نے انہيں اسطرح اسلامي قوانين کے مطابق ڈھالا ہے کہ وہ اب غير اسلامي نہيں رہيں البتہ بپتسمہ کي رسم اپني اس حالت ميں جيسا کہ بعض مسلمان اسے انجام ديتے ہيں عيسائي رسم ہے اور ايک مسلمان کو عيسائي مذہب کے قوانين پر عمل نہيں کرنا چاہيے - اگرچہ قرآن ميں عيسي کا کئي مقامات پر احترام کيا گيا ہے ليکن عيسائيت کے قوانين پر عمل کرنا مسلمان کيلئے جائز نہيں -

بچے کو نہلانا پاکيزگي کيلئے ضروري ہے ليکن عيسائيوں کے طريقے پر نہيں بلکہ ميں تمام مسلمانوں کو ايسا کرنے سے پرہيز کرنے کي تلقين کرتا ہوں اور جو کوئي ميرے منع کرنے کے باوجود اس فعل کي تکرار کرے ميں اسے حقيقي مسلمان نہيں سمجھوں گا اگرچہ وہ اصول دين سے منحرف نہيں ہوا -

ليکن ايک عيسائي رسم کي پيروي سے ظاہر ہے کہ دين اسلام کے بارے ميں اس کا عقيدہ پختہ نہيں ہے اور اس کا يہ تکرار مسلمان کے درميان تفرقہ بازي کا موجب بنے گا جس طرح عيسائيوں کے درميان تفرقے کا سبب بنا ہے جب امام جعفر صادق سے سوال کيا گيا کہ کيا آج مسلمانوں کے درميان اختلاف نہيں پايا جاتا ؟ آپ نے فرمايا مسلمانوں کے درميان پيغمبر اسلام کي ماہيت کے بارے ميں اختلاف نہيں پايا جاتا - مسلمانوں کے درميان پيشوائي کے بارے ميں ايک جيسا عقيدہ پايا جاتا ہو - اور عيسائيوں کے بعض فرقے ‘ دوسرے فرقيے کے پيروکاروں کو مرتد اور واجب القتل سمجھتے ہيں جس طرح انطاکيہ کے عيسائي فرقے اور حبشہ کے عيسائي فرقے کا عقيدہ ہے کہ نستوري فرقہ والے مرتد اور واجب القتل ہيں -

جو لوگ امام جعفر صادق کے حضور ميں درس پڑھتے تھے وہ نستوري فرقہ کے عقيدہ سے بے خبر تھے اور جعفر صادق نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ ہمارے پيغمبر کي ہجرت سے ايک سو نوے سال پہليا ور 429 عيسوي ميں قسطنطنيہ کے عيسائي اسقف نے جس کا نام نستوريس تھا نے کہا کہ عيسي ماہيت اور فطرت کے لحاظ سے ايک انسان ہے اور اس ميں خدائي ماہيت کا ذرا بھي اثر نہيں ہے ليکن خدا اس ميں اس طرح رہتا ہے جس طرح ايک مسافر کسي سرائے ميں ٹھہراتا ہے يا مومن ‘ کليسا ميں ٹھہرتا ہے يہ نظريہ چند ہي روز ميں قسطنطنيہ ميں عام ہو گيا اور پھر وہاں سے اطراف کے علاقوں ميں پھيل گيا -

اسکندريہ اور انطاکيہ کے عيسائي فرقے جو عيسي کو انساني فطرت اور خدائي فطرت کا خمير سمجھتے تھے نہ صرف يہ کہ انہوں نے نستوريس کے نظريہ کو روکيا بلکہ انہوں نے فتوي ديديا کہ نستوريس اور اس کے پيروکار مرتد اور واجب القتل ہيں

نستوريس کا نظريہ ‘

جس کے تحت وہ عيسي کو مکمل طور پر انساني ماہيت اور فطرت کا حامل قرار ديتا ہے البتہ صرف يہ کہتا ہے کہ ان کا جسم خدا کا مکان ہے (يہ نظريہ ) کافي مقبول ہوا اور اج اس فرقے کے پيروکاروں کو نستوري کہہ کر پکارا جاتا ہے اور اس فرقے کے پيروکار ‘ تمام عيسائي فرقوں کي نظر ميں (چاہے وہ جو عيسي کو خدا سمجھتے ہيں يا وہ جن کا عقيدہ ہے کہ عيسي کا خمير دونوں فطرتوں يعني خدائي اور انساني فطرت سے ہے ) مرتد ہيں -

جعفر صادق نے شاگردوں کے معلومات ميں اضافے کيلئے فرمايا کہ حبشہ کے عيسائي خدا اور عيسي کي وحدت کے قائل ہيں اور کہتے ہيں کہ اگرچہ عيسي انساني ڈھانچہ کا حامل ہے ليکن اس کا انساني ڈھانچہ الوہيت ميں فنا ہے اس بات کو ثابت کرنے اور مخاطب کو سمجھانے کيلئے وہ مختلف مثاليں بھي ديتے ہيں اور کہتے ہيں کہ عيسي کا انساني ڈھانچہ ذات باري تعالي کے مقابلے ميں ايسا ہے جس طرح موم کا ايک ذرہ بہت وسيع اور پھيلي آگ کے اندر ہو اور موم کا ذرہ اس آگ ميں اسي طرح فنا ہو جاتا ہے جس طرح پاني کا قطرہ دريا ميں فنا ہو جاتا ہے -

ايک تيسري چيز جو دوسري صدي کے پہلے پچاس سالوں کے دوران (يعني امام جعفر صادق کے تدريس کے زمانے ميں ) بعض مسلمانوں کي رسومات ميں شامل ہو گئي - وہ تجرد يعني کنواري زندگي تھي مسلمان مرد عيسائي پادريوں کي تقليد ميں شادي نہيں کرتے تھے - اور شادي نہ کرنے کو تزکيہ نفس کا وسيلہ سمجھتے تھے -

اس دور سے پہلے مسلمان صرف عيسائي آرتھوڈ کسي فرقوں کو پہچانتے تھے اور عيسائي کيتھو لکي فرقوں سے ان کا رابطہ نہ تھا اس زمانے ميں دين اسلام کے پھيلنے کي وجہ سے مسلمانوں کے روابط کيتھولک فرقوں سے بھي پيدا ہوئے انہوں نے ديکھا کہ ان فرقوں ميں نہ صرف وہ مرد راہب جو خانقاہوں ميں رہ رہے ہيں شادي نہيں کرتے بلکہ وہ پادري جو کليساğ ميں خدمت ميں مشغول ہيں بھي شادي بياہ کرنے سے اجتناب کرتے ہيں -

عيسائي آرتھوڈ کسي فرقے جن سے مسلمانوں کا رابطہ تھا انطاکيہ اور اسکندريہ فرقوں کي مانند پادريوں کي شادي کو جائز سمجھتے تھے -

بعض عيسائي آرتھوڈ کسي فرقوں نے پادريوں کيلئے شادي بياہ ممنوع قرار دے ديا تھا ليکن مسلمانوں ان سے واقف نہ تھے جب اسلام اتنا پھيل چکا ہ مسلمانوں کے روابط عيسائي کيتھو لکي فرقوں يا عيسائي لاطيني فرقے سے برقرار ہوئے تو انہوں نے مشاہدہ کيا کہ کيتھولک عيسائي پادري شادي بياہ نہيں کرتے اور ساري زندگي مجرد گزار ديتے ہيں اس بات کا ان پر کافي اثر ہو اور بعض مسلمانوں نے کنوارے رہنے کو ترجيح دي خاص طور پر يہ کہ جب وہ کنوارے زندگي بسر کرتے تھے تو خاندان کي معاشي کا کفالت کے فکر سے بھي بچ جاتے تھے حقيقت يہ ہے کہ شادي کيتھولکي پادريوں پر حرام نہيں تھي اس طرح اگر کوئي کيتھلوکي پادري شادي کرتا تو وہ حرام عمل کا مرتکب نہيں ہوتا تھا -

کسي دور ميں بھي نہ ہي کسي پوپ کي طرف سے ا ور نہ ہي کيتھولکي پادريوں کي کسي عالمي کميٹي کيطرف سے (کميٹي جس کے ممبران ‘ عيسائي مذہب کے پيشو ہوتے ہيں اور وہ باہم مل کر فيصلہ کرتے ہيں ) پادريوں پر شادي بياہ کے حرام ہونے کا فتوي صادر کيا گيا تھا ليکن کيتھلوکي پادري کا کنوارہ رہنا دو دليلوں کي بنا پر اس کا کمال شمار ہوتا تھا پہلي دليل يہ کہ لوگ کہتے تھے وہ عيسي کا خدمت گزار ہے اس ليے اس کي روش کي پيروي کرتا ہے کيونکہ عيسي نے شادي نہيں کي تھي -

دوسري دليل يہ کہ وہ کہتے تھے جب پادري فارغ البال ہو گا تو وہ اپني تمام جسماني اور روحاني توانائي کو کليسا کي خدمت کرنے اور کيتھولک مذہب کے فروغ کيلئے وقف کرے گا -

کيتھولک پادريوں کي طرف سے شادي کے حرام نہ ہونے کي دليل يہ ہے کہ حاليہ چند سالوں کے دوران چند کيتھولکي پادريوں نے واٹيکن (کيتھولک مذہب کا مرکز) سے شادي کرنے کي اجازت لي تھي اور اگر پادري کيلئے شادي کرنا حرام ہوتا تو واٹيکن ہر گز شادي کرنے کي اجازت نہ ديتا اور کوئي کيتھولک پادري ايک حرام کام کے ارتکاب کيلئے کيتھولک مذہب کے مرکز سے اجازت نہ ليتا کيونکہ اگر اس کي درخواست قبول نہ کي جاتي تو اسے پشيماني ہوتي -

بہر حال بعض مسلمان مرد کيتھولک پادريوں کي تقليد ميں شادي بياہ سے پرہيز کرتے تھے امام جعفر صادق نے اس تقليد کي مخالفت کي اور فرمايا مرد کا شادي بياہ سے پرہيز اللہ تعالي کے احکام کي خلاف ورزي ہے اور اس سے انسان کو روحاني نقصانات ہوتے ہيں اس کے علاوہ بھي کنوارہ پن مسلمانوں کے معاشرے کيلئے خطرناک ہے کيونکہ اس سے مسلمانوں کي تعداد کم رہ جاتي ہے جب کہ کفار کي تعداد دن بدن بڑھتي ہے جعفر صادق نے مسلمانوں سے کہا اگر کنواري زندگي ضروري ہوتي يا اس کا کچھ فائدہ ہوتا تو پيغمبر اسلام کنوارے ہوتے اور چونکہ پيغمبر اسلام نے شادي کي ہے اس ليے ہر مسلمان مرد کو شادي کرنا چاہيے تاکہ وہ ان معنوي نقصانات سے جو کنوارے پن سے وجود ميں آتے ہيں بچ سکے اور افزائش نسل کے ذريعے اسلامي معاشرے کي خدمت بجا لائے -

مردوں کے کنوارے رہنے کي امام جعفر صادق نے اس قدر شديد مخالفت کي کہ کنوارے رہنے کي يہ تحريک (قريب تھا کہ اسلام ميں اس کي جڑيں مضبوط ہو جائيں ) اس قدر ضيعف ہوئي کہ تقريبا ختم ہو گئي پھر بھي اس کا بچا کچھ اثر تيسري ‘ چوتھي پانچويں صدي ہجري کے دوران ميں ديکھا گيا ہے کہ مردوں کے ايک گروہ نے تمام عمر شادي نہيں کي جن ميں سے مشہور افراد کو ہم جانتے ہيں -

انيسويں صدي عيسوي تک يہ بات معلوم نہيں ہوئي تھي کہ امام جعفر صادق کي طرف سے کنوارے پن کي مخالفت انسان کي مزاجي اور اعصابي مصلحتوں کي بنا پر تھي قديم لوگ جانتے تھے کہ کنواري پن معنوي لحاظ سے مرد کيلئے مضر ہے ليکن انہيں يہ معلوم نہ تھا کہ انساني بيالوجي اور اعصاب کے لحاظ سے يہ کسي قدر نقصان دہ ہے -

دوسرا يہ کہ پرانے واقتوں ميں جب کنوارے پن کي بات ہوتي تو صرف مرد کے کنوارے پن کو مد نظر رکھا جاتا عورب کے کنوارے پن کي طرف توجہ نہيں دي جاتي تھي گويا زن کا کنوارہ ہونا کنوارے پن ميں شمار نہيں ہوتا تھا جب کہ موجودہ زمانے ميں جب ہم کنوارے پن کي بات کرتے ہيں تو ہمارے پيش نظر مرد و زند دونوں کا کنواري پن ہوتا ہے انيسوي صدي عيسوي کے بعد آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ کنوارہ پن مرد اور عورت دونوں ميں نہ صرف يہ کہ اعصاب کي شکست و ريخت کا باعث بنتا ہے بلکہ اس سے بدن کے دوسرے فرائض ميں بھي خلل واقع ہوتا ہے جس سے اعصاب کے علاوہ جسماني صحت بھي متاثر ہوتي ہے-

بشکريہ : الحسنين ڈاٹ کام

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان