• صارفین کی تعداد :
  • 3438
  • 2/8/2012
  • تاريخ :

سورۂ بقره کي آيات  نمبر 18-16  کي تفسير

بسم الله الرحمن الرحیم

  نبي رحمت اور ان کي عترت طاہرہ پر درود و سلام کے ساتھ" کلام نور " ليکر حاضر ہيں -عزيزان محترم! جيسا کہ سورۂ بقرہ کے آغاز ميں ہي خداوند عالم نے قرآن حکيم کو متقي و پرہيزگار مومنين کے لئے کتاب ہدايت قرار ديا ہے اور پرہيزگاروں کے اوصاف بيان کرکے در حقيقت قرآن کريم سے بھرپور استفادہ کے شرائط معين کردئے ہيں اور قرآن سے صحيح استفادہ کو ہي اصل کامراني و کاميابي قرار ديا ہے ليکن مسلمانوں کے درميان نفاق کے لباس ميں ملبوس ايک گروہ وہ بھي پايا جاتا ہے جو اپنا سرمايۂ فطرت و ہدايت شيطان کے ہاتھ بيچ کر راہ ضلالت اختيار کرليتا ہے اور چونکہ فکر و معرفت کي راہ بند ہوجاتي ہے يہ لوگ قرآن سے بہرہ مند نہيں ہوتے بلکہ سورۂ بقرہ کي 16 ويں آيت کے مطابق : " اُولئکَ الّذِينَ اشتَرَوُا الضّلَالَۃَ بِالہُدي فَمَا رَبِحَت تّجَارَتُہُم وَ مَا کَانُوا مُہتَدِينَ " يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے قيمت کے طور پر ( اپنے ہاتھوں سے ہدايت و آگہي ) ديکر ضلالت و گمراہي خريدلي ہے ليکن اس تجارت اور سودے ميں ان کے لئے کوئي سود اور فائدہ نہيں ہے اور نہ ہي کسي طرح کي ہدايت نصيب ہوتي ہے -قرآن کريم کي نظر ميں دنيا تجارت کا مرکز ہے اور اس عظيم بازار ميں ہم تمام تاجروں کا اصل سرمايہ ہماري عمر، زندگي کے اوقات، ہماري استعداد و صلاحيت ، ہماري جواني کي توانائياں اور بڑھاپے کے تجربات ، ہماري عقل و فراست ، فطرت، ضمير و وجدان ، علم و قدرت اور وہ تمام خداداد نعمتيں ہيں جو ايک انسان کي حيثيت سے ہم کو عطا کي گئي ہيں اگر ہم ان سرمايوں کا استعمال الہي حقائق و معارف کے حصول اور خريداري ميں کرتے ہيں تو يہ تجارت ايک سودمند تجارت کہي جائے گي جسميں فائدہ ہي فائدہ ہے اور اگر کسي اور راہ ميں يہ سرمائے کام آئے تو تجارت ميں گھاٹا ہي گھاٹا ہوگا: " وَ العَصرِ، اِنّ الاِنسَانَ لَفِي خُسرٍ اِلّا الّذِينَ امَنُوا وَ عَمِلُوا الصّالِحَات " قسم ہے عصر کي ! بيشک انسان گھاٹے ميں ہے سوائے ان لوگوں کے جو صاحب ايمان ہيں اور نيک کام کرتے ہيں ---جي ہاں ! جو لوگ اپنے علمي و عملي سرمائے کو خدا کي راہ ميں صرف نہيں کرتے گھاٹے ميں رہتے ہيں در اصل، ميدان تجارت ميں انساني سرمايہ کاري کے دو ہي ميدان ہيں کچھ لوگ خدا کے ساتھ تجارت کرتے ہيں اور فائدے ميں رہتے ہيں کچھ شيطان کے ساتھ تجارت کرتے ہيں اور نقصان اٹھاتے ہيں - سورۂ صفّ کي دسويں اور گيارہويں آيات ميں خدا نے اسي کي طرف اشارہ کيا ہے کہ : " اے ايمان والو! کيا ميں تمہيں ايک ايسي تجارت کي طرف متوجہ کروں جو تم کو دردناک عذاب سے نجات عطا کردے تو اللہ اور اس کے رسول پر ايمان لے آؤ اور راہ خدا ميں جان و مال سے جہاد کرو----" يعني  پہلا قدم اعتقاد کا ہے کہ خداؤ رسول پر ايمان لاؤ اور دوسرا قدم عمل صالح کا ہے کہ جان و مال سے راہ خدا ميں جہاد کرو يہ تجارت تمہارے حق ميں مفيد ہے - سورۂ توبہ کي آيت ايک سو گيارہ ميں خدا فرماتا ہے : " اِنّ اللہَ اشتري مِنَ المُؤمِنينَ اَنفُسَہُم وَ اَموالَہُم بِاَنّ لَہُم الجَنّۃَ " بيشک اللہ نے جنت کے بدلے ميں اہل ايمان سے ان کے جان و مال کا سودا کرليا ہے -گويا خداوند متعال جو سب کا مالک و مختار ہے اپنے بندے کو وکالت ديديتا ہے کہ اے ميرے بندے تيري زندگي جو تيرے اختيار ميں ہے اگرچہ ميں ہي اس کا مالک ہوں مگر ميں اس کا سودا خود تم پر چھوڑتا ہوں کہ تم اس کو ميرے ہاتھ بيچنے پر تيار ہو يا کسي اور ( شيطان ) سے سودا کرنا چاہتے ہو؟! ميرے ہاتھ بيچوگے تو ميں تم کو آزاد بنادوں گا اور دوسرے کے ہاتھ بيچا تو تم اسکے غلام اور اسير بن جاؤ گے ، پس مومنين اپنا سودا خدا کے ساتھ کرکے آزاد ہوجاتے ہيں اور منافقين اپنے سرمايۂ فطرت و ہدايت کا شيطان کے ساتھ سودا کرکے بندۂ شيطان بن جاتے ہيں اور گمراہي ان کامقدر بن جاتي ہے کيونکہ جو شخص اپنا سرمايۂ حيات ہي ہاتھ سے کھودے قابل ہدايت نہيں رہتا " و ما کانوا مہتدين " اور يہ اپنے اختيار سے غلط فائدہ اٹھانے کا نتيجہ ہے - چنانچہ سورۂ بقرہ کي آيت سترہ اور اٹھارہ ميں منافقين کي اس صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے خدا فرماتا ہے : " مَثَلُہُم کَمَثَلِ الّذِي استَوقَدَ نَارًا فَلَمّا اَضَائت مَاحَولَہ، ذَہَبَ اللہُ بِنُورِہِم وَ تَرَکَہُم فِي ظُلُمَاتٍ لّا يُبصِرُون، صُمّ بُکمٌ ، عُميٌ فَہُم لَا يَرجِعُون " ايسے منافقين کي مثال ان لوگوں کي مثال ہے جو آگ روشن کريں اور جب اس کي روشني ان کے جار طرف پھيل جائے تو خداوند عالم اس کے نور کو سلب کرلے اور ان کو تاريکيوں ميں اس طرح چھوڑدے کہ انہيں کچھ بھي سجھائي نہ ديتا ہو، يہ لوگ ( حق کي تعليم کے سلسلے ميں ) بہرے ، گونگے اور اندھے ہوچکے ہيں لہذا ( کفر سے دست بردار ہوکر حق کي طرف ) کبھي واپس نہيں آئيں گے - انسان لقائے حق کي امنگ ميں سفر کررہا ہے اور اس کو ايک ايسے نور کي ضرورت ہے جو اس کي راہ کو روشن و منور رکھے تا کہ بالآخر اس کو جمال حق کا ديدار نصيب ہوجائے مگر ان ہي انسانوں ميں نفاق کے لباس ميں ملبوس منافقين خود بھي نور و نورانيت سے محروم ہيں اور نور خدا سے بھي روشني حاصل نہيں کرتے جس کي وجہ سے ہميشہ تاريکيوں ميں غرق رہتے ہيں ان کي رفتار و گفتار کو سامنے رکھتے ہوئے خداوند قرآن نے ان کي مثال ايک ايسے شخص سے دي ہے جو تاريک بيابان ميں آگ کا الاؤ روشن کرتا ہے اور جس وقت اس کے گرد و پيش روشني پھيلنے لگتي ہے ايک الہي جھکڑ اس کے روشن کردہ الاؤ کو اڑاکر تتر بتر کرديتا ہے اور وہ ايک بار پھر تاريکيوں ميں ڈوب جاتا ہے - گويا خدا نے منافقين کے نور "اسلام " کو آگ کے الاؤ سے تعبير کيا ہے جو ہوا کے ايک جھونکے سے بکھر کر خاموش ہوجاتا ہے آگ کي تپش اور دھويں کے درميان، دھندلي اور بے جان روشني کي طرح ان کا ظاہري اسلام و ايمان زمانے کي تيز رفتار کے ساتھ رخصت ہوجاتا ہے کيونکہ کفر کي آگ نے ان کے باطن کو تاريک کررکھا ہے - دراصل، منافق کے يہاں آگ کي طرح بے نور روشني بھي ان کي اس فطرت کي دين ہوتي ہے جو خدا نے ان کے وجود ميں قرار دي ہے ليکن کينہ ؤ دشمني ، تعصب اور ہٹ دھرمي کے سبب فطرت کے اس چراغ پر بھي ظلم و جہالت کے پردے پڑجاتے ہيں اور ان کا وجود تاريکيوں ميں ڈوب جاتا ہے - نفاق کي راہ پر گامزن افراد چونکہ خيال کرتے ہيں وہ مؤمنين يعني اہل نور کو دھوکہ ديکر اہل " نار" کافروں کو بھي راضي رکھ سکتے ہيں اور کافروں کي دنيا ميں شموليت کے ساتھ مومنوں کي دنياؤ آخرت سے بھي فائدہ اٹھا سکتے ہيں لہذا ان کےلئے قرآن نے آگ کي بڑي ہي بليغ مثال قرار دي ہے آگ جلتي ہے تو اس ميں نور و نار دونوں يکجا نظر آتے ہيں اور آگ بجھتي ہے تو صرف تاريکي ہي تاريکي رہ جاتي ہے چنانچہ منافقين کے دلوں ميں روشن فطري ايمان کي آگ کو خدا خاموش کرديتا ہے تا کہ وہ ظلمتوں ميں سرگرداں رہيں ظاہر ہے درميان راہ اندھيروں ميں بھٹکنا خود کسي عذاب سے کم نہيں ہے منافق سعادت و نجات کے عظيم علمي و عملي سرمايوں سے محروم ہوکر کسي بہرے گونگے اور اندھے کي طرح بيابان زندگي ميں بھٹکتا رہتا ہے اور انساني فطرت کي طرف برگشت کي راہيں اپنے ہاتھوں سے ہي مسدود کرديتا ہے کيونکہ کفر و نفاق کي راہ ، نور و نورانيت کي طرف برگشت سے محروم، دائمي ہلاکت اور تباہي کي راہ ہے - اسي لئے قرآن نے منافقين کو " روئے زمين پر بدترين چلنے پھرنے والوں " سے تعبير کيا ہے -ديکھنے ميں تو منافقين بھي دوسرے انسانوں کي طرح آنکھ کان اور زبان رکھتے ہيں ليکن زبان حق بولنے کان حق سننے اور آنکھ حق ديکھنے سے محروم ہوتي ہے اور حقائق کي پہچان نہيں کرپاتے وہ لَايَشعُرُون ، لَايَعلَمُون، لَايُبصِرُون اور يَعمَہُون کے مصداق بن جاتے ہيں ان کا شعور، ان کا علم و ادراک ، ان کي بصارت و بصيرت گم ہوکر انہيں بيابان جہل و کفر ميں سرگرداں رکھتي ہے اور وہ حق و باطل ميں تميز کي قوت ہي نہيں رکھتے تاريکي اور ہلاکت ان کا مقدر بن جاتي ہے يہاں قرآن نے دو آيتوں ميں دو حقيقتوں کي طرف اشارہ کيا ہے کيونکہ کبھي تو آنکھيں سلامت ہوتي ہيں راستے ميں اندھيرے کے سبب کچھ دکھائي نہيں ديتا اور کبھي راستہ روشن ہوتا ہے آنکھيں اندھي ہونے کے باعث کچھ سجھائي نہيں ديتا منافقين کے لئے يہ دونوں صورتيں خدا نے جمع کردي ہيں ايک آيت ميں " انہيں تاريکيوں ميں چھوڑ دينے "  (ترکہم في ظلمات لا يبصرون ) کي طرف اشارہ ہے اور دوسري آيت ميں " آنکھوں ميں ہي روشني نہ ہونے" ( صُمّ بکم عُمي ) کي طرف اشارہ ہے گويا منافق تمام جہتوں سے حق کو حق سمجھنے کي صلاحيت سے محروم ہوجاتا ہے-نہ راہ ميں" نور" ہوتا نہ " ديدۂ بينا" ہي پايا جاتا ، اندھيرے اور اجالے کي تميز بالکل ختم ہوجاتي ہے - چنانچہ روايات کي روشني ميں مرسل اعظم (ص) " نور"  کا مصداق کامل ہيں ان کي رحلت کے ذريعے يہ نور چھپن ليا گيا ليکن منافقين ، نہ تو آپ کي حيات کے زمانے ميں " نور محمد" سے بہرہ مند ہوئے اور نہ ہي آپ کي رحلت کے بعد آپ کي يادگار " قرآن اور عترت" سے انہوں نے فائدہ اٹھايا بلکہ گمراہي ميں بھٹکتے دوسروں کو گمراہ کرتے رہے -

معلوم ہوا : تجارت ميں اپنے سرمائے سے صرف فائدہ اٹھانا اہميت نہيں رکھتا بلکہ يہ ديکھنا چاہئے کہ ہم کس کے ساتھ اپنے سرمايۂ حيات کا سودا کررہے ہيں ، جان و دل کسے بيچ رہے ہيں اور کيا حاصل کررہے ہيں سعادت و ہدايت ہاتھ آرہي ہے يا شقاوت و گمراہي ؟

· ظاہر ہے خدا کے ساتھ معاملہ کرنے والے مومن کے برخلاف منافق دنيا کے ساتھ اپنے دين کا سودا کرتا ہے اور گمراہي و ضرر کے سوا اس کو کچھ ہاتھ نہيں آتا-

· منافق کے سينے ميں موجود فطري نور" آگ کي روشني کي طرح دھندلا اور کمزور ہوتا ہے اور چونکہ وہ حصول نور کے لئے " نار" سے استفادہ کرتا ہے اس کو دھويں اور آتش سے گزرنا پڑتا ہے اور آخر ميں تاريکي اس کا مقدر بن جاتي ہے -

بشکريہ آئي آر آئي بي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان