• صارفین کی تعداد :
  • 3616
  • 2/8/2012
  • تاريخ :

سورۂ بقره کي آيات  نمبر 5-4  کي تفسير

بسم الله الرحمن الرحیم

خداوند قرآن کي حمد و ستائش اور حامل وحي و رسالت پيغمبر اعظم (ص) اور ان کي عترت مکرم پر درود و سلام کے ساتھ کلام نور ميں آج ہم اپني گفتگو سورۂ بقرہ کي چوتھي آيت سے شروع کررہے ہيں خدا کي عظيم کتاب قرآن حکيم سے پوري طرح ہدايت و رہنمائي حاصل کرنے والے متقي و پرہيزگار مومنين کي خصوصيات بيان کرتے ہوئے خدا فرماتا ہے: "و الّذين يؤمنون بما انزل اليک و ما انزل من قبلک و بالاخرۃ ہم يؤقنون " ( يعني قرآن کي رہنمائي سے ) وہ لوگ ( فائدہ اٹھاتے ہيں جو ) جو کچھ بھي ( اے پيغمبرص) آپ کے قلب اطہر پر ( قرآن يا حديث قدسي کي صورت ميں ) نازل ہوا ہے اس پر اور جو کچھ اس سے پہلے ( آسماني کتابوں ميں ) نازل ہوچکا ہے اس پر ايمان لاتے اور ( روز ) آخرت پر يقين رکھتے ہيں - علم  و معرفت کي ايک اہم راہ " وحي" ہے پرہيزگار مومنين جس پر ايمان رکھتے ہيں جيسا کہ اس سے قبل کي آيات ميں نماز برپا کرنے اور راہ خدا ميں خرچ کرنے کے ساتھ غيب پر ايمان پرہيزگاروں کے ابتدائي ترين اوصاف بتائے گئے ہيں جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ شناخت و معرفت کي راہ صرف انساني حسيات يا مشاہدات و تجربات تک محدود نہيں ہے ہمارے محسوسات سے مافوق و ماورا بھي ايک دنيا پائي جاتي ہے جس کي عقل بھي تائيد کرتي ہے ليکن دقيق طور پر اس دنيا کي شناخت و پہچان کرانے سے عقل عاجز ہے اسي لئے خداوند عقل نے اس دنيا کي پوري شناخت و معرفت کے لئے      " وحي و رسالت" کو ذريعہ ؤ وسيلہ قرار ديا ہے عقل کہتي ہے کہ ايک خدا کا وجود ضروري اور لازم ہے ليکن وہ خدا کون ہے ؟ اس کے لئے اللہ نے وحي کے ذريعہ اپنے اوصاف و کمالات سے اپنے بندوں کو خود آشنا بنايا ہے عقل کہتي ہے کہ اللہ نے جب انسان کو اپنے امور ميں مختار بنايا ہے تو اس کے اچھے اور برے اعمال کي جزا ؤ سزا کے لئے ايک " روز حساب " بھي ہونا چاہئے چنانچہ وحي کے ذريعہ لوگوں کو معلوم ہوا ہے کہ اللہ نے قيامت کا ايک دن حساب کتاب کے لئے معين کيا ہے اور اس دن کي خصوصيات يہ ہيں گويا عقل و وحي ايک دوسرے کے مکمّل اور مفسر و مؤيّد ہيں اور متقي و پرہيزگار مومنين دونوں سے استفادہ کرتے ہيں -  وحي و رسالت چونکہ مرسل اعظم (ص) سے مخصوص نہيں ہے اس لئے آيت کے مطابق پرہيزگار مومنين حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلّم کي رسالت و نبوت اور آپ پر نازل ہونے والے قرآن پر ايمان کے ساتھ گزشتہ نبيوں، رسولوں اور آسماني کتابوں پر بھي ايمان رکھتے ہيں کيونکہ قرآن پر ايمان کا لازمہ يہ ہے کہ گزشتہ انبيائے الہي اور ان پر نازل شدہ آسماني کتابوں اور معجزوں نيز فرشتوں پر بھي ايمان لايا جائے اور مومنين متقي قرآن کے ان تمام معارف پر ايمان رکھتے ہيں - وحي کي مانند عالم آخرت بھي غيبي امور ميں سے ہے اور اس کي صحيح شناخت و پہچان وحي الہي کے ذريعہ ہي ممکن ہے اس لحاظ سے متقين روز قيامت پر بھي يقين رکھتے ہيں اور موت کو تمام امور کا اختتام نہيں سمجھتے قيامت ، دين کے بنيادي ترين اصول اور مسلمات ميں سے ہے کيونکہ خدا کا دين ايک صراط يعني راستہ ہے اور منزل و مقصد يعني قيامت کا تعين کئے بغير کسي راہ کو طے کرنا مفيد نہيں قرار ديا جا سکتا چنانچہ عقيدۂ معاد کي راہ ميں علمي شبہات اور عملي شہوات رکاوٹ بنتے ہيں اور اہل تقوي ايمان و يقين کي پاک و صاف غذا کے استعمال سے ہاتھ آنے والي فکر اور عمل کے سبب دونوں سے محفوظ رہتے ہيں چنانچہ اہل آخرت وہ مومنين ہيں جو اپنے تمام امور ميں الہي رنگ بھي ديتے ہيں اور ہر حال ميں خدا سے راضي ہوتے ہيں اور خدا ان سے راضي ہوتا ہے -اور اب سورۂ بقرہ کي پانچويں آيت ارشاد ہوتا ہے : " و اولئک علي ہدي مّن رّبّہم و اولئک ہم المفلحون " ( يعني ) يہي لوگ اپنے پروردگار کي طرف سے ہدايت يافتہ اور يہي لوگ نجات پانے والے کامياب و کامران ہيں -عزيزان محترم ! اعلي مراتب پر فائز متقي و پرہيزگر الہي ہدايت و رہبري کے ايسے مرکب پر سوار ہيں جو ان کو ان کے اصل مقصد تک پہنچا کر رفعت و بلندي عطا کرديتا ہے اور يہ وہي الہي اور تکويني رہنمائي ہے جو قرآني تعليمات سے بھرپور طور پر استفادے کي زمين فراہم کرتي ہے يہ لوگ چونکہ ہدايت يافتہ ہيں الہي احکام و دستورات پر چل کرفلاح و کامراني بھي حاصل کرليتے ہيں ، نجات کي راہ ميں حائل تمام رکاوٹيں برطرف ہوجاتي ہيں اور چونکہ انسان کا اصل مقصود کمال مطلق سے ملحق ہونا ہے وہ اس ميں کامياب ہوکر لقاء اللہ کي منزل پر فائز ہوجاتے ہيں ظاہر ہے اس مقام تک پہنچنے کے لے اپني فطري آگہي اور تقوے کے ساتھ تقوائے عبادي نماز برپا کرنا ، تقوائے مالي، راہ خدا ميں خرچ کرنا اور تقوائے اعتقادي وحي و رسالت اور قيامت پر ايمان و يقين تک پہنچنا ضروري ہے اور يہ سب کچھ ثقلين يعني کتاب صامت و ناطق کي پيروي کے بغير ممکن نہيں ہے -فلاح و نجات کا مطلب ہے نفساني اور شيطاني خواہشات و ترغيبات سے آزادي حاصل کرلينا اور اپنے وجود ميں اعلي انساني اخلاق و کمالات کو نشو و نما دينا در اصل عربي زبان ميں کسان کو " فلّاح " کہتے ہيں جو زمين کے اندر ڈالے گئے بيج کے اگنے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کےلئے زمين فراہم کرتا ہے فلاح و نجات ، انساني کمال و ارتقاء کي آخري منزل ہے کيونکہ قرآني آيات کي روشني ميں يہ عالم ہستي انسان کےلئے ،انسان عبادت و معرفت کےلئے اور عبادت و معرفت تقوے کےلئے ہے اوراہل تقوي ہي فلاح کي منزل پر فائز ہوتے ہيں يعني شر اور برائي سے آزاد ہوکر خير و نيکي کي دنيا ميں پہنچ جاتے ہيں - معلوم ہوا:  اسلام ميں خدا کے تمام نبيوں رسولوں اور اس کي کتابوں پر ايمان لازم و ضروري ہے کيونکہ تمام انبياء (ع) اور تمام کتابيں خدا کے ايک ہي دين کي ہدايت و رہبري کے لئے آئي ہيں البتہ قرآن کے سوا دوسري آسماني کتابيں قوموں نے تحريف کردي ہيں اس لئے اختلاف کي صورت ميں قرآن پر عمل کرنا چاہئے - چونکہ تمام نبيوں کا ہدف و مقصد ايک ہے اس لئے ان پر ايمان اسلام کا جزء ہے -  قيامت پر يقين کے بہت سے مثبت آثار پائے جاتے ہيں دنيا طلبي کي ہوس ختم ہوجاتي ہے انسان خدا کي نافرماني سے بچتا اور اس کي خوشنودي و رضا کے لئے کام کرتا ہے -سعادت و کامراني الہي ہدايت و رہنمائي کے مطابق زندگي گزارنے کے بعد ہي ہاتھ آتي ہے - سعادت و نجات کے حصول کے لئے جستجو ضروري ہے اور علم و معرفت کے ساتھ  اچھے کام کرنا اور برے کاموں سے بچتے رہنا اہل تقوي کي کامراني کا اصل راز ہے -

بشکريہ آئي آر آئي بي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان