• صارفین کی تعداد :
  • 4297
  • 2/8/2012
  • تاريخ :

سورۂ بقره کي آيت  نمبر  1 کي تفسير

بسم الله الرحمن الرحیم

 جيسا کہ ہم سب جانتے ہيں قرآن کريم ، ہر عہد اور زمانے کے ہر انسان اور ہر بشر کے لئے کتاب ہدايت ہے اور اس کتاب کو خداوند عالم نے اپنے آخري نبي حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلّم پر ان کي رسالت کے ابدي اور جاوداں معجزے کے طور نازل کيا ہے اور اسي کتاب ميں سورۂ سباء کي 28 ويں آيت ميں مرسل اعظم (ص) کي قلمرو رسالت کي وضاحت کرتے ہوئے فرمايا ہے: " و ما ارسلناک الّا کافّۃ للنّاس بشيرا وّ نذيرا " ( اے ہمارے نبي ص) ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے بشير و نذير بناکر بھيجا ہے- لہذا جس طرح خدا نے نبي رحمت (ص) کو پوري دنيا کے لئے بشير و نذير، رسول قرار ديا ہے اللہ کي کتاب، قرآن بھي تمام انسانوں کي ہدايت و رہنمائي کي ايک ابدي ، عالمي اور جاوداں کتاب ہے اسي لئے قرآن کي زبان، زبان فطرت ہے يعني اسميں قيامت تک آنے والے تمام انسانوں کي مشترکہ تہذيب کي ترجماني کي گئي ہے اس کے مخاطب چونکہ ہر زمانے کے انسان ہيں اس لئے قرآن نے انساني فطرت کو مخاطب بناکر ان کي فطرت کو جگانے اور شگوفہ آور کرنے کا فريضہ انجام ديا ہے - قرآن کي اس مشترکہ انساني تہذيب اور زبان کا نظارہ، بزم رسالتمآب ميں موجود انساني سماج کے ان مختلف چہروں ميں بھي کيا جا سکتا ہے جنہوں نے سلمان فارسي، ابوذر حجازي ، اويس قرني صھيب رومي اور بلال حبشي و غيرہ کي شکل ميں اس کتاب سے اپنے انساني جذبوں کو معمور کيا اور ايمان و ايقان کي بلنديوں پر فائز ہوئے ہيں بہرصورت، يہ قرآن جو عالم بشريت کے لئے" ہدايت" ہے " سبع مثاني" يعني سورۂ حمد کے ساتھ رسول اکرم(ص) پر نازل ہوا ہے چنانچہ سورۂ حمد کے بعد قرآن کا دوسرا سورہ، سورۂ بقرہ آيتوں کي تعداد کے لحاظ سے اس کتاب خدا کا سب سے بڑا سورہ ہے اور چونکہ اس سورے ميں بني اسرائيل کي گائے کي داستان بيان ہوئي ہے اس سورے کا نام" بقرہ" يعني " گائے کي داستان والا سورہ " قرار پايا ہے نزول کے اعتبار سے يہ مدني دور کے ابتدائي سوروں ميں سے ہے اگرچہ اس کي بعض آيات ( 196 تا 203 ) حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئي ہيں اور ان ميں حج تمتع کے احکام بيان ہوئے ہيں اور ابن کثير کے بقول : اس سورے ميں ايک ہزار خبر، ايک ہزار اوامر اور ايک ہزار منہيات بيان ہوئے ہيں -رسول اکرم (ص) کي احاديث ميں اس سورہ کو " سنام قرآن" يعني" قرآن کي بلند چوٹي" ، " سيد قرآن" اور اسي طرح " فسطاط قرآن" يعني " خيمۂ قرآن" سے تعبير کيا گيا ہے جس سے اس سورے کي عظمت کا پتہ چلتا ہے - سورۂ بقرہ کي شان و منزلت اس رخ سے بھي نماياں ہے کہ يہ سورہ "آيت الکرسي" کي مانند ممتاز نوراني آيات پر مشتمل ہے جس کو " گنج عرش" کہا گيا ہے جناب ابوذر کي وصيتوں ميں بھي ملتا ہے کہ انہوں نے پيغمبر اکرم (ص) سے سوال کيا کہ وہ برترين آيت جو آپ پر نازل ہوئي کون سي آيت ہے؟ تو حضور اکرم(ص) نے فرمايا: " آيت الکرسي" چنانچہ اس سورہ کي آيات تدريجي طور پر نازل ہوئي ہيں اور اس ميں مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئي ہے چونکہ آيات کے مطالب سمجھنے ميں آيات کے نزول کا ماحول سمجھنا ضروري ہے اس لئے سورۂ بقرہ کي آيات پڑھنے اور سمجھنے کے لئے يہ بات ذہن ميں رہے کہ اس سورے کي آيات کا بڑا حصہ مرسل اعظم(ص) کي ہجرت سے جنگ بدر کے آغاز تک اور کچھ آيات جنگ بدر کے بعد کچھ مہينوں کے دوران نازل ہوئي ہيں اور يہ وہ زمانہ ہے جب اسلام کا لوگ بڑي تيزي کے ساتھ استقبال کررہے تھے اور توحيد کي دعوت مکہ کي سرحدوں سے نکل کر حجاز کي سرحدوں پر آباد مختلف قوموں اور مذہبي اقليتوں کے درميان پھيل چکي تھي اور اسلام کے اس فروغ سے نہ صرف يہود و نصراني بلکہ ايران و روم کي سلطنتيں بھي خوف محسوس کرنے لگي تھيں دوسري طرف مسلمانوں کي بڑھتي ہوئي تعداد کے سبب شريعت اسلامي کے احکام و قوانين کے نزول اور عمل درآمد کا ماحول بھي فراہم ہورہا تھا خود مدينۂ منورہ جو نبي اکرم (ص) کي ہجرت سے قبل يثرب کے نام سے جانا جاتا اور جہاں دو قبيلے " اوس" و " خزرج" آباد تھے جنہوں نے اسلام قبول کرکے اپني ايک سوبيس سالہ پراني جنگ و دشمني اور جاہلي آداب و رسوم ترک کرکے آپس ميں برادرانہ رشتہ قائم کرليا تھا-اوس و خزرج کے علاوہ يہوديوں کے تين قبيلے بني قريظہ ، بني نضير اور بني قينقاع بھي يہيں آباد تھے جو مالي اعتبار سے بہت مستحکم تھے اور خود کو دوسروں سے بالاتر سمجھتے تھے اور اہل کتاب کے عنوان سے معروف تھے اور زيادہ تر اوس و خزرج نے پيغمبر اسلام(ص) کے مبعوث ہونے کي بشارتيں ان ہي اہل کتاب سے سني تھيں- البتہ مدينہ ميں آباد اوس و خزرج کے درميان کچھ ايسے مشرکين بھي تھے جنہوں نے پہلے تو اسلام قبول نہيں کيا ليکن آہستہ آہستہ جب اسلام کي قوت بڑھنے لگي اور زيادہ تر ان ميں مسلمان ہوگئے تو عبداللہ ابن ابيّ کي مانند بعض افراد نے منافقت کي چادر اوڑھ کر بظاہر اسلام قبول کرليا اور يہيں سے منافقين کا ايک گروہ مدينہ ميں پيدا ہوگيا- سورۂ بقرہ کے نزول کي اس فضا کو بيان کرنے کے بعد اب ہم اصل سورے کي تفسير شروع کرتے ہيں ارشاد ہوتا ہے:بسم اللہ الرّحمن الرّحيم ، الم يعني شروع کرتے ہيں رحمن و رحيم اللہ کے نام سے ، الف، لام ، ميم عزيزان محترم!عام طور پر ايک لفظ کئي حروف يا کم از کم دو حرفوں سے مل کر بنتا ہے اور ايک معني پيدا کرتا ہے ليکن خداوند عالم نے قرآن حکيم کے ايک سو چودہ سوروں کے درميان انتيس سورے بسم اللہ کے بعد ايک يا کئي حروف سے شروع کئے ہيں اور ان ميں ہر حرف الگ الگ اپنے اصل نام سے ہي پڑھا جاتا ہے مثلا اسي سورے کے آغاز ميں الف لام ميم پڑھتے ہيں الم نہيں پڑھتے يہ حروف اپنا ايک خاص مفہوم رکھتے ہيں - اور وہي افراد اس کا مطلب سمجھتے ہيں جو" راسخون في العلم" ہيں يعني جن کو خود اللہ کي طرف سے اس کا علم ديا گيا ہے - اس انداز کا کلام قرآن حکيم سے پہلے ديگر آسماني کتابوں يا عرب زبانوں کے کلام ميں کہيں اور نظر نہيں آتا اور اہل قرآن کي اصطلاح ميں ان حروف کو " حروف مقطعہ" يعني ايک دوسرے سے جدا الگ الگ کرکے پڑھے جانے والے حروف، کہتے ہيں سورۂ بقرہ کے يہ ابتدائي حروف الف ، لام ، ميم بھي ان ہي حروف ميں شمار ہوتے ہيں -اس منزل ميں ايک قابل توجہ بات يہ ہے کہ قرآن حکيم ميں اس طرح کے چارسورے، مريم، عنکبوت، روم اور قلم کو چھوڑکر زيادہ تر مقامات پر ان حروف مقطعہ کے بعد جو آيات ہيں ان ميں خود قرآن حکيم کي ہي معجزانہ شان اور حقيقت وحي کا ذکر ہوا ہے جيسا کہ سورۂ شوري ميں " حم عسق" کے بعد خدا فرماتا ہے:" کذلک يوحي اليک و الي الّذين من قبلک اللہ العزيز الحکيم"يعني اسي طرح خدائے عزيز و حکيم آپ کي طرف اور آپ سے پہلے والوں کي طرف وحي کرتا ہے- گويا خدا يہ بتانا چاہتا ہے کہ ميں نے اپني يہ معجزنما کتاب تم عرب زبانوں کے درميان رائج حروف " الف با" سے ہي تشکيل و ترتيب دي ہے اس کے الفاظ و ترکيبات تمہارے لئے ناآشنا اور نامفہوم نہيں ہيں -حروف "مقطعہ" کے سلسلے ميں يہ بھي قابل توجہ ہے کہ اگر مکررات حذف کرديں تو يہ کل چودہ حرف بنتے ہيں جن سے مفسرين نے مختلف جملے بنائے ہيں جن ميں ايک معروف جملہ يہ ہے کہ: صراط عليّ حقّ نمسکہ علي کا راستہ حق ہے اس سے وابستہ ہوجاؤ، ليکن اپنے عقائد کے اثبات کي يہ راہ علماء کے نزديک مستحسن نہيں ہے -ايک بات اور ياد رہے کہ زيادہ تر جن سوروں ميں حروف مقطعہ آئے ہيں وہي حروف سورہ کا نام بن گئے ہيں جيسے سورۂ يس، طہ ، ص اور ق و غيرہ چنانچہ " الم " پہلے جزء کا نام بھي ہے اور سورۂ بقرہ کا بھي نام ہے مگر پارے کے نام سے ہي عام طور پر رائج ہے-اسي حروف مقطعہ کے لئے کہا گيا ہے کہ يہ اسمائے الہي کي طرف ايک اشارہ ہيں جو بعيد نہيں ہے جيسا کہ بعض حروف مقطعہ، پيغمبر اکرم (ص) کے نام کي طرف رمز و اشارہ ذکر ہوئے ہيں -بہرصورت ، حروف مقطعہ خدائے متعال اور اس کے رسول احمد مجتبي(ص) کے درميان ايک رمز و اسرار کي حيثيت رکھتا ہے جس کا مقصود دوسروں تک کوئي مطلب پہنچانا نہيں ہے اصل مقصود تک پہنچنا محمد(ص) و آل محمد عليہم السلام کے سوائے کسي کے بس کي بات نہيں ہے ايک سرالہي ہے جو حامل قرآن جانتا ہے يا وہ جانتے ہيں جنہيں قرآن کا علم ديا گيا ہے - البتہ چونکہ خدا نے ہي فکر و تدبر کا حکم ديا ہے اور حروف مقطعہ بھي قرآن کا ہي جزء ہيں اس لئے معصومين کے اقوال و ارشادات کي روشني ميں غور و فکر کا حق سب کو حاصل ہے -

بشکريہ آئي آر آئي بي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان