• صارفین کی تعداد :
  • 3018
  • 2/7/2012
  • تاريخ :

ديني جمہوريت اور ڈيموکريسي ( حصّہ چہارم )

ایران

اسلام ميں سياسي نظاموں کي قانوني حيثيت

 ديني جمہوريت کي حقيقي صورت يہ ہے کہ نظام کو خدا کي ہدايت اور عوام کے ارادے سے چلنا چاہئے- اسلام ميں عوام قانون کي جملہ بنياد نہيں ہيں بلکہ اس کے جملہ ارکان ميں سے ايک ہيں- اسلام کا سياسي نظام عوام کي رائے اور مرضي کے علاوہ ديگر اصولوں پر بھي جن کو تقوا اور عدل کہا جاتا ہے، استوار ہوتا ہے- جس کو حکومت کے لئے منتخب کيا گيا اگر اس ميں تقوا اور عدل پسندي نہ ہو تو خواہ تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہو تب بھي اس کي حکومت اسلام کے نقطۂ نگاہ سے غير قانوني ہے- اکثريت تو کچھ بھي نہيں، امام حسين عليہ السلام فرماتے ہيں،"و لامري ما الامام الا الحاکم بالقسط" اسلامي معاشرے ميں حاکم اور حکومت صرف وہ ہو سکتي ہے، جوعدل پر قائم ہو،عدل و انصاف پر عمل کرے- اگر عدل و انصاف قائم نہ کيا تو چاہے جس نے بھي اس کو منصوب کيا ہو اور چاہے جس نے بھي اس کو منتخب کيا ہو، وہ حکومت غير قانوني رہےگي-

اسلام ميں جمہوريت کي بنياد

 ايک مسئلہ جس پر ميں نے بارہا تاکيد کي ہے، يہ ہے کہ اسلامي نظام ميں اسلامي بنياد عوامي بنياد سے الگ نہيں ہے- اسلامي نظام ميں عوامي بنياد ہي اسلامي بنياد بھي ہے- جب ہم " اسلامي نظام" کي بات کرتے ہيں، تو ممکن نہيں ہے کہ عوام کو مد نظر نہ رکھا جائے- انتخابات ميں عوام کے حق کي بنياد اور اساس خود اسلام ہے- بنابرايں ديني جمہوريت کي اپني ايک بنياد اور اس کا اپنا ايک فلسفہ ہے-

ديني جمہوريت اور شريعت الہي ميں يہ بات واضح ہے کہ عوام حاکم کو پسند کرتے ہوں، تاکہ اس کو قبول کيا جائے اور اس کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہو- (کسي مسلمان سے پوچھيں) تم مسلمان ہو بتاۆ کہ عوام کي رائے کيوں معتبر ہے؟ کہے گا "اس لئے کہ ہم مسلمان ہيں، اس لئے کہ ہم اسلام پر عقيدہ رکھتے ہيں اور اس لئے کہ اسلام کي منطق ميں عوام کے رائے ، خدا کي نظر ميں انسان کي جو خاص منزلت ہے اس کي بنياد پر لوگوں کي رائے معتبر ہے- اسلام ميں انسانوں پر کسي کي بھي حکومت اور ولايت قبول نہيں ہے سوائے اس کے جس کو خدا معين کرے- بہت سے فقہي مسائل ميں حاکم، قاضي يا مومن کي ولايت کے مسئلے ميں جب شک ہوتا ہے کہ اس ولايت پر شرعي جواز ہے يا نہيں، تو ہم کہتے ہيں کہ نہيں- کيوں؟ اس لئے کہ "اصل عدم ولايت ہے" (اسلامي فقہ کا ايک اصول جس کي رو سے مشکوک چيز کو کالعدم قرار ديا جاتا ہے)- يہ اسلام کي منطق ہے- ولايت صرف اس وقت قبول کي جاتي ہے جب اس کے بارے ميں شارع ( شريعت بنانے والے يا رسول اسلام ) کا حکم ہو اور حکم شارع اس بات پر ہوتا ہے کہ جس کو ہم ولايت دے رہے ہيں، وہ ولايت کے جس مرتبے پر بھي فائز ہو، اس کوصلاحيت اور اہليت کا مالک يعني صاحب تقوا و عادل اور عوام ميں مقبول ہونا چاہئے- ديني جمہوريت کي منطق يہ ہے جو بہت گہري اور محکم ہے- مومن پورے اعتقاد کے ساتھ اس منطق کو قبول کرکے اس پر عمل کر سکتا ہے- اس ميں کسي شک و شبہے کي گنجائش نہيں ہے-

اردو خامنہ اي ڈاٹ آئي آڑ

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

مخالفت كى اقسام