• صارفین کی تعداد :
  • 2189
  • 2/7/2012
  • تاريخ :

محمد(ص)محوند کي حيثيت سے

محمد (ص)

قرون وسطي کے آغازسے رنيسينس تک

اس دورميں مشرق و مغرب ميں دواہم واقعات رونما ہوتے ہيں-

پہلا واقعہ روم ميں مقدس سلطنت کي تشکيل ہے کہ جو قديم روم کي تہذيب و تمدن کي نابودي ، يورپ کے مختلف علاقوں ميں شمالي بربرقبائل و گروہوں کے معرض وجود ميں آنے نيزعيسائيت کے سرکاري مذھب کي حيثيت سے منظرعام پر آنے کا باعث بني-اس مقدس سلطنت نے قديم رومي سلطنت کي طرح يورپ کو متحدکرنے کي کوشش کي -

دوسرا واقعہ اسلام کاظہور اس کي ترقي و پيشرفت اور فتوحات ہيں اسلامي فتوحات کا ايک بڑاحصہ ميڈيٹرينين ساحلوں پر آباد عيسائي سرزمينوں کي تسخيرسےمتعلق ہے اس طرح اسلام عيسائيت کا سب سے بڑارقيب بن جاتاہے اس کے علاوہ محمد (ص)يعني اسلام کے باني حضرت عيسي مسيح کي جانشيني کے دعويدار اور تثليث کاانکار بھي کرتےہيں-کليسا کے لۓ يہ ناقابل برداشت ہے -

ان دوواقعات کا نتيجہ روم کي مقدس حکومت کي طرف سے اسلام کو سرکوب کرنے اور مقدس سرزمينوں کو اس کے قبضے سے نکالنے کے لۓ صليبي جنگيں شروع کرنا ہے -صليبي جنگيں 1095 ميں شروع ہوئيں اور بارہ سو سترميں ختم ہوئيں صليبي جنگوں کے دوران ہي حکومت روم نے بيت المقدس اور شام کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کيا،گيارہ سو اڑتاليس ميں صلاح الدين ايوبي نے عيسائيوں کو بيت المقدس اور ديگر علاقوں سے نکال باہر کيا اس کے بعد بھي حکومت روم نے صليبي جنگيں جاري رکھيں جن ميں عيسائيوں کو شکست ہوئي اور انہيں ہميشہ کے لۓ بيت المقدس سے ہاتھ دھوناپڑا-

ايسے ماحول ميں رسول اللہ کے بارے ميں يورپ کي ذھنيت وجود ميں آتي ہے-اس ذھنيت کي اساس وہ معلومات ہيں جو يورپيوں نے اسلامي ملکوں کے ساتھ تعلقات کے نتيجے ميں حاصل کي تھيں اور مسلمانوں سے دشمني کے ساۓ ميں ان کا تجزيہ اورتحليل کي تھي- مينو صميمي لکھتي ہيں کہ "ان ہي پرآشوب وخونبار صديوں ميں محمد (ص) کے بارے ميں غيرحقيقي اور بے بنياد تصورات قائم ہوتے ہيں جو سارے يورپ پر چھاجاتے ہيں "

يہ وہ زمانہ ہے کہ يورپ ميں کم و بيش رسول اللہ کو پہچانا جاتاتھا گرچہ ان معلومات کا سرچشمہ اسلامي کتابيں تھيں ليکن يہ معلومات افسانوں داستانوں اور توھمات کے ساتھ گھل مل گئي تھيں اور ان کي اساس يہ تصور تھاکہ اسلام ظہور مسيح سے قبل آنے والا دجال ہے -

عيسائيت ميں حضرت مسيح کو بے شمار مادي معجزات کا حامل قرارديا گيا ہے بنابريں محمد(ص)کے معجزہ کا حامل نہ ہونے کے بارے ميں کسي روايت کا نہ ہونا ان کي نظر ميں رسول اللہ کو جھوٹي اور فريب کا رشخصيت بناديتاہے-نبوت کے دعوے کو بھي مغربي اذھان نے مرگي کي بيماري سے تعبيرکيا ہے-اسي زمانے ميں اسلامي تہذيب وتمدن يورپ کے لۓ ايک چيلنج بن کر ابھري ايسي چيلينج جسےانہوں نے اسپين و سسلي سے پہچانااس امرسے يورپي حسد کي آگ ميں جلنے لگے اور نہ صرف دين اختلافات کا سبب بنا بلکہ فوجي ترقي اورزندگي کے تمام شعبوں ميں علمي اورتہذيبي ترقي بھي يورپ کے شديد حسد ميں مبتلاہونے کا باعث بني -

مغرب نے تين طريقوں سے محمد(ص)کے بارے ميں معلومات حاصل کيں پہلے بيزانس دوسرے اسپين اور تيسرے ان اعياني کمانڈروں کے ذريعے جنہوں نے صليبي جنگوں ميں شرکت کي تھي -

جان دمشقي ان پہلے مصنفين ميں سے ہے جس نے اپني کتاب De Haeresbus Liber| ميں رسول اللہ کے بارے ميں لکھا ہے- حضرت خديجہ کے مال وثروت سے استفادہ کرنا جنگ سے شغف اور بے پناہ جنسي خواہش وہ امور ہيں جو انہيں رسول اللہ کي شخصيت کے بارے ميں قرون وسطي سے ورثہ ميں ملے ہيں-جنسي خواہش کے بارے ميں يہ يادرکھناچاہيے کہ قرون وسطي ميں کليسا کي رہبانيت کے پيش نظريہ امر کس قدر منفي تصورکياجاتاہوگا-جان دمشقي کا خيال ہےکہ محمد (ص) کومشکوک عيسائي بدعت پسند عناصرنے گمراہ کياتھا اور انہوں نے بعد ميں عربوں کو گمراہ کرنا شروع کرديا-

بيد معززقرون وسطي کا ايک اور مصنف ہے جس نے بدوعربوں کي جنگ پسندانہ خصلت پر کافي زورديا ہے اور انہيں جسورجنگ طلب وجاھل قرارديا ہے-مجموعي طورسے وہ لفظ ساراسن کے سہارے جو يورپ ميں بدوعرب کے معني ميں ہے اسلام و محمد(ص)کو پہچنوانے کي کوشش کي ہے-

اسپين نے کئي صديوں سے مسلمانوں کےساتھ سمجھوتاکرليا تھا اور يہاں کے عيسائي مسلمانوں کےساتھ گھل مل گۓ تھے اوراسلامي تہذيب وتمدن کے زير اثر انہوں نے اپني تہذيب و تمدن کوبھي سدھار لياتھا يا کم ازکم اسے فلسفيانہ رنگ دے ديا تھا اسي زمانے ميں يہودي تہذيب بھي اسپين ميں مستحکم تھي اور يہ بھي اسلامي تہذيب ہي سے متاثر تھي بنابريں اس بات پر کوئي تعجب نہيں ہونا چاہيۓ اگر يہ کہا جاے کہ عيسائي اور يہودي اسلامي و عرب متون کا مطالعہ کرتے تھے اس صورتحال کو ديکھ کے صناديد عيسائيت کو يہ خدشہ لاحق ہوگياکہ کہيں ان کے پيرواسلامي ثقافت ميں ضم نہ ہوجائيں اسي وجہ سے انہوں نے محمد (ص) اور اسلام کو بدنام کرنےکي مہم شروع کردي اسي زمانے سے رسول اللہ کي شخصيت کو مسخ کرنے کا آغازہوتاہے اور بے بنياد تصورات وجود ميں لاے جاتے ہيں اس زمانے ميں بعض افراد نے اسلام کو آخرالزمان ميں دجال کے ظہور کا پيش خيمہ قرارديا اور يہ پروپگينڈا کتاب مقدس (انجيل ) کي بعض عبارتوں کا سہارا لے کر کياگيا-"آلواروس "آٹھ سو پينتاليس عيسوي ميں لکھتےہيں کہ "افسوس کہ ذھين عيسائي جوان شوق سے عربوں کي کتابوں کا مطالعہ کررہے ہيں اور عيسائي کتابوں کو بے اھميت اورناقابل توجہ سمجھتےہيں"

محترمہ مينوصميمي لکھتي ہيں کہ محوند،محون،اور فرانسيسي ميں ماحون جرمني ميں ماخمت ايسے نام ہيں جن کے معني ديو ،عفريت اور بت کے ہيں يہ وہ نام ہيں جوبارھويں صدي عيسوي ميں يورپ کے عيسائي ڈرامہ نويسوں يا عاشقانہ اور رزميہ داستانيں لکھنے والوں کي ايجاد ہيں -

اس زمانے ميں ايسي بہت سي رزميہ داستانيں لکھي گئيں جن ميں يورپ کي تعريف و تمجيد کي گئي ہے ان تمام داستانوں ميں مسلمانوں کو مشترکہ دشمن بتاياگيا ہے-بعض داستانوں ميں ملتاہے کہ محون يعني وہي محمد (ص)ايسا بت ہے جسے ساراسن (بدوعرب)پوجتے ہيں اور عيسائيوں کي طرح جو خدا(باپ)کو اور يہودي جو يہوہ کو مدد کے لۓ پکارتے ہيں وہ بھي محون کو پکارتے ہيں اس طرح قرون وسطي کے يورپ کي داستانوں اور ترانوں ميں محمد(ص) کو ايک بت بنا کرپيش گيا تھا،تعجب تو اس بات پرہے کہ انگريزي کا لفظ Mammetry محومت سے اخذکياگيا ہے جس کے معني مجسموں يا تصويروں کي پرستش يا بت پرستي کےہيں-

بعض داستانيں جو حضرت محمد(ص) کي توہين کي غرض سے لکھي گئي ہيں اس قدر افسانوي خلاف واقع اور آپ کي شخصيت کے برخلاف ہيں کہ انہيں نقل کرتے ہوۓ بھي انسان شرم سے پاني پاني ہوجاتاہے،يہ ترانے عام طورسے عوام کے درميان رائج تھے ان ترانوں ميں آنحضرت کو بت يا نعوذباللہ شيطان کے روپ ميں پيش کرنا اس زمانے کے ادب ميں رائج تھا اور يہ روش اگلي صديوں ميں بھي جاري رہي -

دوسري صليبي جنگ: جب صليبي سپاہ کو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست فاش ہوئي تو سارے مسائل کا ذمہ دار محمد(ص) کو ٹہرايا گيا جنہيں "شيطان"دجال اور جھوٹے پيغمبر سے تعبير کيا جاتاتھا-اسي زمانے ميں راھب برنارڈ کلروکے مقابلے ميں جنہوں نے دوسري صليبي جنگ کےدوران مذھبي قيادت سنبھال رکھي تھي راھب کلوني کو ديکھتے ہيں جن کا خيال تھا کہ عيسائيوں کو صلح ودوستي کے راستے سے مسلمانوں کو صحيح طرح سے پہنچاننا چاہيے اور قرآن کي کمزوريوں کو سمجھ کرعام لوگوں کويہانتک کہ مسلمانوں کو ان سے آگاہ کرکے انہيں اسلام سے دستبردار ہونے کي ترغيب دلاني چاہيے اس راھب نے اپني آمدني سے لاطيني زبان ميں قرآن کا ترجمہ آمادہ کرنےکي کوشش کي اور رابرکتن نامي ايک انگريزکو يہ ذمہ داري سونپي اس انگريزنے گيارہ سوتينتاليس ميں لاطيني زبان ميں قرآن کا ترجمہ مکمل کيا-

صليبي جنگوں کے مخالفين ميں ايک نام راجربيکن کا ملتاہے ان کا خيال تھا کہ ان جنگوں ميں عيسائيوں کي کاميابي کے باوجود بھي وہ مسلمانوں کو عيسائي نہيں بناسکتے ان کے خيال ميں عيسائيت کي تبليغ و ترويج ہي عيسائيت کو پھيلانے کا منطقي اور مفاہمت آميزطريقہ تھا-بيکن نے کندي فارابي ابن سينا اور ابن رشد کي کتابوں کے لاطيني ترجموں کا مطالعہ کيا تھا اور وہ جانتے تھے کہ اسلام ترقي و پيشرفت کرے گا-

اس زمانے ميں رسول اللہ کا نام دشنام و توہين کے ساتھ ليا جاتاتھا اور کوئي بھي آپ کا نام دشنام کے بغير نہيں ليتاتھا برطانوي شاعرويليم لنگلينڈ نے تيرہ سو باسٹھ ميں Piers Plowman کے عنوان سے ايک نظم لکھي جس ميں وہ کہتاہے کہ "ميں محمد (ص) کو ديکھ رہاہوں کہ وہ دوزخيوں کے ساتھ درک اسفل ميں ہيں"اس نظم ميں محمد (ص)کو بدعت گزار کارڈينال کہا گيا ہے جو حجازميں مرتد ہوگيا ہے اور نيا دين بناليا ہے اس شاعر کي نظرميں محمد(ص)دجال کے گروہ کے سردار ہيں -

اس برطانوي شاعرکے ايک سو پچاس سال بعد اسکاٹلينڈ کے شاعر ويليم دنبارنے محمد (ص) کو جہنم کے امور کا ذمہ دار قرارديا ہے-

دانتے اور اسکي الھي کاميڈي کا بھي يہي حال ہے اور اسي سلسلے کي ايک کڑي ہے دانتے اس کاميڈي ميں قاري کو ايک گائيڈ کے ہمراہ دوزخ اور برزخ کي سير کراتے ہيں اور اسے بتاتے ہيں کہ عيسائيت کے دشمنوں کو کيسے کيسے خوفناک عذاب ميں مبتلاکيا گيا ہے ،دانتے کي الھي کاميڈي کے بيس سال بعد صليبويں کا آخري مرکزيعني بيت المقدس بھي ان کے ہاتھوں سے نکل گيا بنابريں دانتے بري طرح صليبي جنگوں ميں شکست کے منفي اثرات کے زير اثر تھے،دانتے نے محمد (ص) کو ايسے گنہگار کے روپ ميں پيش کيا ہے جو اپنا سينہ اپنے ہاتھوں سے چاک کررہا ہے دانتے کي نظرميں محمد(ص) کا گناہ يہ تھاکہ انہوں نے جھوٹے دين کوپھيلايا،وحي نازل ہونے کا دعوي کيا جوکہ ايک طرح کا کفر آميزمکروفريب ہے اور دنياميں اختلافات کے بيج بوۓ-

مصنفہ: مينوصميمي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں :

پيغمبر اکرم (ص) کے دلنشين پيغامات