دور حاضر ميں اقبال کے فلسفہ خودي کي اہميت ( حصّہ پنجم )
اقبال کا نظريہ خودي برصغير کے حالات کے تقاضوں کے عين مطابق تھا اور يہ نظريہ ردعمل کے طور پر پيدا ہوا تھا پروفيسر عثمان ايک مثال پيش کرتے ہوۓ لکھتے ہيں کہ اگر کارل مارکس اپنے عہد سے پہلے يعني انيسوي صدي کي بجاۓ اٹھارويں صدي ميں صنعتي انقلاب سے پہلے پيدا ہوتا تو اس کا فلسفہ اور سوچ حالات کے مطابق قطعي طور پر مختلف ہوتي جو اس دور کے مخصوص سوالوں کا جواب ہوتا -
اقبال کا فلسفہ خودي بھي اپنے عہد کے چيلنج کا جواب تھا - اقبال کے سامنے يہ مقصد تھا کہ اسلامي تہذيب و ثقافت کو نظريہ قوميت کے خطرے سے محفوظ رکھا جاۓ - انہوں نے مغربي قوميتي تصور کے سامنے اسلامي تصور قوقيت پيش کيا جو زبان ، نسل اور وطن کي بجاۓ ايک روحاني بنياد پر قائم ہے - کيمبرج ميں اقبال کے استاد پروفيسر ميک ميگرٹ کو اس بارے ميں يہ کہنا پڑا تھا کہ اقبال نے اپني فکر کي تشکيل ميں اپنے ماحول کو ملحوظ رکھا اور اس بات يعني عمل پر زور ديا جس کي اس کے ملک و قوم کو ضرورت تھي يعني اقبال کا فلسفہ خودي محض فکر و تخيل کي پيداوار نہ تھا بلکہ اپنے عہد کے چيلنج کا جواب تھا - (4)
اقبال کے دور ميں ہي اشتراکي نظام نے انقلاب برپا کر ديا جس کا مشاھدہ دوسرے تجزيہ نگاروں کي طرح اقبال نے بھي کيا - اقبال نے اس بارے ميں بھي لکھا اور ربال جبريل کي نظم ، فرمان خدا ( فرشتوں سے ) ان کي نظم ميں کميونسٹ مبني فيسٹور ( اشتراکي منشور ) کا خلاصہ درج ہے جسے روسي زبان ميں ترجمہ کرکے اگر لنين کے حضور پيش کر ديا جاتا تو وہ اسے عالمي اشتراکيت کا ترانہ بنا ديتے - (5) -
حضرت علامہ محمد اقبال نے اشتراکي نظام کي تحسين ميں جب کچھ کہا تو بعض لوگوں نے انہيں مسلم سوشلسٹ کا لقب تک دے ديا حالانکہ اشتراکيت کے اندر بہت ساري خرابياں موجود تھيں اور ان خرابيوں کے بارے ميں اقبال نے پوري طرح سے پيشنگوئي کر دي تھي کہ يہ نظام زيادہ دير نہيں چلے گا اور جس خدشے کا اظہار اقبال نے کيا تھا وہ نصف سے زائد صدي گزر جانے کے بعد ہي ظاہر ہونا شروع ہو گيا اور انقلاب اشتراکيت اپني خرابيوں کي بدولت زوال پذير ہو گيا -
شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان