• صارفین کی تعداد :
  • 604
  • 1/5/2012
  • تاريخ :

 امريکي جرائم

امریکہ کا پرچم

امريکن کينسر سوسائٹي کي جانب سے نشر کي گئي رپورٹ ميں آيا ہےکہ امريکہ ميں سياہ فام شہري ديگر قوموں اور نسلوں سے زيادہ کينسر کي زد ميں ہوتے ہيں- اس رپورٹ ميں کہا گيا ہے  کہ سماجي اور اقتصادي عوامل سياہ فام باشندوں کو کينسر کي زد ميں لانے ميں اہم کردار ادا کرتےہيں کيونکہ امريکي سياہ فام شہري ديگر نسلوں اور قوموں کي نسبت بہت کم طبي امداد سے بہرہ مند ہيں اورانہيں طبي سہولتيں کم ملتي ہيں- طبي محقق ہريت واشنگٹن نے اپني کتاب طبي اپارتھائيڈ ميں سياہ فام شہريوں پر انجام دئےجانے والے تجربوں اور ان کي جسماني اور نفسياتي تندرستي کے اضمحلال  کے اسباب و علل سے پردہ اٹھايا ہے- يہ تحققيات جو امريکہ ميں غلامي کے دور ميں حفظان صحت کي صورتحال پر سياہ فام شہريوں کے احتجاج سے آغاز ہوتي ہيں ان ميں بتايا گيا ہے کہ کس طرح سماجي ڈاروينيزم اور انساني نسل کي اصلاح کي کوششوں کے بہانے امريکي حکومت اور فوج نے طبي تجربے کئے ہيں- ہريت واشنگٹن اپني اس کتاب ميں انيس سو تيس کي دہائي ميں تاسکيگي کے شرمناک طبي تجربوں کي تفصيلات بھي بيان کرتے  ہيں-

انيس سو بتيس ميں امريکي ڈاکٹروں نے ( ظاہر سي بات ہے سفيد فام ڈاکٹروں نے )  نہايت خطرناک تجربے سفليس سے آنے والي تبديليوں اور اس بيماري کي پيشرفت کے بارے ميں انجام دئے تھے- يہ تجربے رياست آلاباما کے شہر تاسکيگي ميں انجام دئے گئے تھے ان ميں چار سو غريب کسانوں کو صرف اس بہانے سے کہ ان کا مفت علاج کيا جاے گا، کلينک مفت لےجايا جائے گا اور روزآنہ ايک وقت کا کھانا مفت ديا جائے گا اور موت کي صورت ميں ان کے بازماندگان کو ايک ہزار ڈالر دئے جائيں گے ليباريٹري کے چوہوں ميں تبديل کردياگيا- انہيں سفليس کے علاج کے لئے پني سيلين سے محروم کرديا گيا تا کہ يہ ديکھا جاسکے کہ يہ بيماري کس طرح پيشرفت کرتي ہے- انيس سو بتيس ميں سفليس کا علاج نہايت درد ناک اور شديد جانتي اثرات کاحامل اور غير موثر تھا- انيس سو تينتاليس کےبعد سے سفليس کے لئے پني سيلين تجويز کي جانے لگي- امريکي ڈاکٹر جو دراصل اس بيماري کے بارے ميں مزيد معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے انہوں نے جانتے بو جھتےہوئے بيمارون کو پني سيلين سے محروم کرديا- ان طبي تجربوں کے نتيجے ميں ظاہر سي بات ہے بيچارے مريض لقمہ اجل بن گئے- اسکےبعد واشنگٹن اسٹار نامي اخبار نے ان تجربوں سے پردہ اٹھايا اسکے بعد نيويارک ٹائمز نے بھي اس کے بارے ميں رپورٹ پيش کي- ان اخباروں نے ايک ڈاکٹر پيٹر بيک اسٹين سے معلومات حاصل کي تھيں- امريکہ ميں ان غير انساني تجربوں پر عوام نے بہرحال احتجاج کيا ليکن کچھ دنوں بعد وہ بھي ٹھنڈا پڑگيا-

ہريت واشنگٹن کے مطابق سائنسي نسل پرستي اور عناد جس کا سرچشمہ غلامي کا زمانہ ہے اور جس کا يہ ماننا ہے کہ سياہ فام بايولوجيکل لحاظ سے سفيد فاموں سے بہت مختلف ہوتےہيں بردہ داري کے جاري رہنے اور سياہ فاموں بالخصوص سياہ فام عورتوں کے طبي تجربوں ميں استعمال کئے جانے کا بنيادي سبب ہے- واشنگٹن کا کہنا ہے کہ يہ عناد زمانے کے ساتھ ساتھ اس قدر بڑھتا گيا ہے کہ سياہ فاموں کو تمام سائنسي تجربوں ميں ليباريٹري کا چوہا بناديا گيا ہے جبکہ سياہ فام کبھي اس بات پر راضي نہيں تھے- علاوہ ازيں مرنے کے بعد سياہ فاموں کي لاشيں پوسٹ مارٹم ميزوں پر سب سے پہلے پہنچائي جاتي ہيں اور غضب يہ کہ ان کے رشتہ دار کو آگاہ کرنے کي کوئي ضرورت محسوس نہيں کي جاتي اور آج بھي يہ سلسلہ جاري ہے-

امريکہ ميں سياہ فام عورتوں کے بازğ ميں اس بہانے سے کہ وہ بچوں کے ساتھ برا سلوک کرتي ہيں زبردستي ايسا کيپسول لگاديا جاتا ہے جس سے وہ پانچ برسوں کے لئے بانجھ ہوجاتي ہيں- يہ کام رياست بالٹي مور ميں خاص طور سے انجام ديا جاتاہے جہاں کي آبادي تراسي فيصد سياہ فاموں پر مشتمل ہے اور طالبات کي شرح ترانوے فيصد ہے-

امريکي حکومت نے انيس سو بانوے سے انيس سوستانوے تک فن فلورامين نامي شديد زہريلي دوا کے تجـربے ان ايک سو دس سياہ فام لڑکوں پر انجام دئے تھے جو حکومت کے دارالتاديب ميں پرورش پارہے تھے- يہ دوا قلبي حملوں کا سبب بنتي ہے - امريکي حکومت يہ ديکھنا چاہتي تھي کہ اس دوا لو لينے کے بعد ان لڑکوں ميں تشدد کے رجحان ميں کتنے فيصد اضافہ ہوتا ہے-

امريکہ ميں انيس سو ساٹھ سے انيس سو ستر تک اولاندو جي اينڈي نامي ايک ماہر نفسيات نے خيراتي اداروں ميں پلنے والے سياہ فام لڑکوں پر بھيانک تجربے کئے، اورلاندوں ان بچوں کے دماغ کا ايک حصہ نکال کر ان پرتجربے کرتا تھا- ان بچوں کي عمريں چھے سال سے زيادہ نہيں تھيں- ان بھيانک تجربوں کا بہانہ کيا تھا؟ يہ ڈاکٹر صاحب سياہ فام بچوں کي رفتاري کيفيات کا مطالعہ کرناچاہتے تھے جبکہ يہ سياہ فام بچے پوري طرح سے جسماني اور نفسياتي تندرستي کےحامل تھے- اس واقعے کا اس سے وحشتناک پہلو يہ ہے کہ اورلاندو کي يونيورسٹي يعني مي سي سي پي يونيورسٹي اپنے اس نابغے اور اسکے کارناموں پر آج تک فخر کرتي ہے- شايد آج ان تجربون کي تعداد کم ہوگئي ہے ليکن يہ تجربے بدستور جاري ہيں اور افريقہ تيسري دنيا کے غريب ملکوں ميں آج بھي يہ انسانيت سوز اقدمات کئے جارہے ہيں- مثال کے طور پر چيچک کي وائرس جسے ايڈمنٹن زاگرب کے نام سے موسوم کيا گيا تھا اس کے تجربے لوس اينجلس ، برازيل اور افريقہ کے کے کئي بچوں پر کئے گئے جن سے ان کي موت ہوگئي-