• صارفین کی تعداد :
  • 1661
  • 1/4/2012
  • تاريخ :

گناھگار اور توبہ كى اميد

بسم الله الرحمن الرحیم

گناھگار اور توبہ كى اميد

ايك نيك اور صالح شخص كو ديكھا گيا كہ بھت زيادہ گريہ و زاري كررھا ھے، لوگوں نے گريہ و زاري كي وجہ پوچھى؟ تو اس نے كھا: اگر خداوندعالم مجھ سے يہ كھے كہ تجھے گناھوں كي وجہ سے گرم حمّام ميں ھميشہ كے لئے قيد كردوں گا، تو يھي كافى ھے كہ ميري آنكھوں كے آنسو خشك نہ ھوں، ليكن كيا كيا جائے كہ اس نے گناھگاروں كو عذاب جہنم كا مستحق قرار ديا ھے، وہ جہنم جس كي آگ كو ہزار سال بھڑكايا گيا يھاں تك كہ وہ سرخ ھوئى، ہزار سال تك اس كو سفيد كيا گيا، اور ہزار سال اس كو پھونكا گيا يھاں تك كہ سياہ ھوگئى، تو پھر ميں اس ميں كيسے رہ سكتا ھوں؟ اس عذاب سے نجات كي اميد صرف خداوندعالم كي بارگاہ ميں توبہ و استغفار اور عذر خواھي ھے-

ايك سچا آدمي اور توبہ كرنے والا چور

”‌ابو عمر زجاجي “ايك نيك اور صالح انسان تھے، موصوف كھتے ھيں كہ ميري والدہ كا انتقال ھوگيا، ان كي ميراث ميں مجھے ايك مكان ملا، ميں نے اس مكان كو بيچ ديا اور حج كرنے كے لئے روانہ ھوگيا، جس وقت سر زمين ”‌نينوا“پر پہنچا تو ايك چور سامنے آيا اور مجھ سے كھا: كيا ھے تمھارے پاس؟

چنانچہ ميرے دل ميں يہ خيال پيدا ھوا كہ سچائي اور صداقت ايك پسنديدہ چيزھے، جس كا خداوندعالم نے حكم ديا ھے، اچھا ھے كہ اس چور سے بھي حقيقت اور سچ بات كھوں، چنانچہ ميں نے كھا: ميري تھيلي ميں پچاس دينار سے زيادہ نھيں ھے، يہ سن كر اس چور نے كھا: لاؤ وہ تھيلي مجھے دو، ميں نے وہ تھيلي اس كو ديدى، چنانچہ اس چور نے ان دينار كو گنا اور مجھے واپس كردئے، ميں نے اس سے كھا: كيا ھوا؟ اس نے كھا: ميں تمھارے پيسے لے جانا چاھتا تھا، ليكن تم تو مجھے لے چلے، اس كے چھرے پرشرمندگي اور پشيماني كے آثار تھے، معلوم ھورھا تھا كہ اس نے اپنے گزشتہ حالات سے توبہ كرلي ھے، اپنے سواري سے اترا، اور مجھ سے سوار ھونے كے لئے كھا: ميں نے كھا: مجھے سواري كي كوئي ضرورت نھيں ھے، ليكن اس نے اصرار كيا، چنانچہ ميں سوار ھوگيا، وہ پيدل ھي ميرے پيچھے پيچھے چل ديا، ميقات پہنچ كر احرام باندھا، اور مسجد الحرام كي طرف روانہ ھوئے، اس نے حج كے تمام اعمال ميرے ساتھ انجام دئے، اور وھيں پر اس دنيا سے رخصت ھوگيا-

بشکريہ عقائد شيعۂ ڈاٹ کام

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان