• صارفین کی تعداد :
  • 3074
  • 1/3/2012
  • تاريخ :

دين اسلام عورتوں کے کونسے حقوق کا قائل ہے ؟ (دوسرا حصّہ)

خاتون

اسلام عورت کو مرد کي طرح مکمل طور پر آزاد سمجھتا ہے ، جيسا کہ ارشاد الٰہي ہوتا ہے:

<کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِينَةٌ > ”‌ہر نفس اپنے اعمال کا رہين ہے“-

يا ايک دوسري جگہ ارشاد ہوتا ہے:

<مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہِ وَمَنْ اَسَاءَ فَعَلَيْہَا>”‌جو بھي نيک عمل کرے گا وہ اپنے لئے کرے گا اور جو بُرا کرے گا اس کا ذمہ دار بھي وہ خود ہي ہوگا“-

اسي طرح يہ آيت بھي مرد اور عورت دونوں کے لئے ہيں، اسي لئے سزا کے بارے ميں قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے:

<الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِاةَ جَلْدَةٍ>

”‌زنا کار عورت اور زنا کار مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگائے جائيں“-

اس کے علاوہ ديگر آيات ميں بھي ايک جيسے گناہ پر دونوں کے لئے ايک جيسي سزا کا حکم سنايا گيا ہے-

ارادہ و اختيار سے استقلال پيدا ہوتا ہے، اور اسلام يہي استقلال اقتصادي حقوق ميں بھي نافذ کرتا ہے، اسلام بغير کسي رکاوٹ کے عورت کو اس بات کي اجازت ديتا ہے کہ وہ ہر قسم کے مالي معاملات انجام دے اور عورت کو اس سرمايہ کا مالک شمار کرتا ہے، جيسا کہ قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے:

<ٍ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اکْتَسَبْنَ>

”‌مردوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انھوں نے کمايا ہے اور عورتوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انھوں نے کمايا ہے“-

لغت ميں ”‌اکتساب“ کے معني کسب اور حاصل کرنے کے ہيں،اسي طرح ايک دو سرا قانون کلي ہے:

”‌النَّاسُ مُسَلِّطُونَ عَلَي امْوَالِھِمْ“ يعني تمام لوگ اپنے مال پر مسلط ہيں-

اس قانون کے پيش نظر يہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام عورت کے اقتصادي استقلال کا احترام کرتا ہے اور عورت مرد ميں کسي فرق کا قائل نہيں ہے-

خلاصہ يہ کہ اسلام کي نظر ميں عورت؛ معاشرہ کا ايک بنيادي رکن ہے اسے ايک بے ارادہ، محکوم ، سر پرست کا محتاج سمجھنا خيال خام ہے-

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

خاتون کے سلسلے ميں اسلام کا طرز سلوک