• صارفین کی تعداد :
  • 625
  • 12/29/2011
  • تاريخ :

دور حاضر ميں  پيش آنے والي  تبديلياں (دوسرا حصّہ)

کتابیں

نور الحسين کا افسانہ ايک عذاب اور  (ايوان اردو، اگست 2008ء) گڑھي سے اُبھرتا سورج (سب رس، جولائي 2010ء) عصر حاضر کي حسّيت کو وسيع پيمانے پر پيش کرتا ہے- يہي صورت حال ساجد رشيد کے افسانہ ’’کٹے ہوئے تار‘‘ (ايوان اردو، اکتوبر 2008ء) ميں بھي نظر آتي ہے-مشرف عالم ذوقي، ميڈونا کي اُلٹي تصوير (ايوانِ اردو، اکتوبر 2006ء)، پارکنسن ذزيز (آج کل، جولائي 2009ئ) اور فيصلہ (ايوان اردو، اگست 2007ء) ميں عالمگيريت، صارفيت اور ماحوليات کي ستم ظريفيوں کو سميٹ ليتے ہيں-صحافتي انداز يا رپورٹنگ کس طرح افسانے کے قالب ميں ڈھلتا چلا جاتا ہے- يہ ہُنر مشرف عالم ذوقي کو خوب آتا ہے- اس انداز کو اپنانے والے اُن کے معاصر موضوع کو آرٹ ميں حلول نہيں کر پاتے بلکہ اکثر موضوع کے فنّي اظہار ميں ناکام رہتے ہيں-

آج کہاني کي نوعيت اور معنويت بدلي ہوئي ہے- اب کتّا، جوتا يا ہَل وغيرہ ايک نئے استعارے کي شکل ميں اُبھرتے ہوئے تبديليوں اور تباہيوں کا ذکر کر رہے ہيں-’’ مسٹر ڈاگ‘‘ ميں کتّا اپني فطري جبلّت بھول جاتا ہے- آدمي کو ہدايت کي جاتي ہے کہ اتنا دُلار مت کرو کہ کہيں اُسے انفيکشن نہ ہو جائے- کتّا غلامي کا استعارہ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ہم اُس کے محکوم کيوں ہيں؟ شايد معاشي طور پر! اس طرح کے تجربات کو مختلف زاويوں سے سميٹنے والے فنکار جن کے افسانوي مجموعے تکنيک کے تجربات کے باوجود بکھراوء کا شکار نہيں ہوئے اس طرح ہيں: وہ اور پرندے (احمد رشيد)، نيا گھر (شاہين سلطانہ)،’’لينڈاسکيپ کے گھوڑے ‘‘ (مشرف عالم ذوقي)، غلام گردش (عابد سہيل)، شورہ پشتوں کي آماجگاہ (مظہر الزماں خاں) ، مرا رختِ سفر (ترنم رياض)، جل ترنگ(مقدر حميد)، حيرت فروش (غضنفر)، نيوکي اينٹ (حسين الحق)، لينڈرا (اسلم جمشيد پوري) راستہ بند ہے (جيلاني بانو)-

نئي نسل کے افسانہ نگاروں ميں آفتاب نجمي اور ارشد اقبال قابلِ ذکر ہيں جن کے افسانوي مجموعے قاري کو سوچنے پر مجبور کرتے ہيں- جو افسانوي مجموعے عالم کاري کے دباوء اور انتشار کو پيش کررہے ہيں اور يہ بھي ظاہر کر رہے ہيں کہ کس طرح ہمارے افسانوں کي زبان متاثر ہو رہي ہے، جملے ٹوٹ کر لفظوں ميں بکھر رہے ہيں، نئي اصطلاحيں بن رہي يں- ان ميں  خالد جاويد کا مجموعہ ’’آخري دعوت‘‘ ہے- اس ميں شامل تمام نو کہانياں انساني سروکار کے تئيں گہري درد مندي اور موجودہ سماجي رويوں کے خلاف پُر زور احتجاج کي شکل ميں ہيں  جتيندر بلّو کے( آٹھ افسانوں کا مجموعہ) ’’چکّر‘‘ ميں مغربي معاشرے ميں رہنے والے مشرقي مہاجرين کي ذہني کشمکش ہے - مادّي ترقي اور دنياوي مناصب کي تگ و دو ہے-’’ہل جوتا‘‘ (18طچ افسانوں کا مجموعہ )ميں شہري اور ديہي زندگي کي کشمکش کو اُجاگر کيا گيا ہے جس ميں ہندي زبان اور مقامي الفاظ کا کثرت سے استعمال ہوا ہے- اشتياق سعيد نے بيشتر افسانوں ميں بيانيہ انداز کو ترجيح دي ہے- سالک لکھنوي کے افسانوں کا مجموعہ (افسانے) جسے عمر غزالي نے ترتيب ديا ہے، اس ميں آٹھ روايتي افسانے ہيں مگر ’’اچھوت‘‘ کي اہميت آج بھي برقرار ہے- يہ افسانہ اپنے برتاوء کے اعتبار سے بھي منفرد ہے- ابن اسماعيل کے مجموعہ ’’مسخ‘‘ ميں چودہ افسانے ہيں جن ميں کشمير کے ابتر حالات کو علامتوں اور استعاروں کے ذريعے اُبھارنے کي کوشش کي گئي ہے- مجموعہ کي اہم خوبي يہ ہے کہ ہر افسانے کي ابتدا نظم سے ہوتي ہے اور وہ نظم موضوع سے پوري طرح مناسبت رکھتي ہے- ’’اور بجوکا ننگا ہو گيا‘‘ ميں شامل سبھي اکيس افسانے پريم چند کي روايت کے امين ہيں- عبدالعزيز خاں کے اندازِ بيان ميں جدّت اور چھا جانے والي کيفيت ہے خصوصاً ممبئي کے عام لوگوں کي زندگي کو انہوں نے خوبي سے اُجاگر کيا ہے- ’’قاشيں زمين کي‘‘ ميں بارہ افسانے ہيں- سيف الرحمن عباد کي زبان سادہ ہے- علامتوں کا سہارا ’’تاريخ‘‘ ميں خوب ليا گيا ہے- کہاني ’’قاشيں زمين کي‘‘ نہ صرف قاري کو متاثر کرتي ہے بلکہ دعوتِ فکر بھي ديتي ہے- ’’مہا پُرش کے بعد‘‘ميں قيصر اقبال نے اپنے قاري کو جھنجھوڑا ہے يہ اُن کا پہلا افسانوي مجموعہ ہے- ’’بازو کي قوت‘‘- ’’آزاد بستي‘‘ اور ’’دم واپسيں‘‘ تاثر اور کيفيت کے اعتبار سے نہايت موثر افسانے ہيں خوبي يہ ہے کہ ان کي علامتيں تہہ دار ہونے کے باوجود انتہائي متاثر کن ہيں ’’پري کتھا‘‘ محمود ايوبي کے گيارہ افسانوں کا مجموعہ ہے جس ميں خواتين کے مختلف اور کہيں کہيں متضاد مسائل کو عصر حاضر کے تناظر ميں پيش کيا ہے- اس سے پہلے 2004ء ميں ’’ذروں کي حرارت‘‘ نے ادبي ماحول ميں حرارت پيدا کر دي تھي- اس کے تمام اٹھارہ افسانوں ميں عورت کي نفسيات، جذبہء ايثار اور کچھ کر دکھانے کا عزم حاوي ہے- اردو کا قاري راجستھاني تہذيب،طبقاتي امتيازات اور آن بان شان سے تو پہلے سے واقف تھا- ثروت خان نے بدلے ہوئے زمانے کے تيور کو ملحوظ رکھتے ہوئے مقامي لب و لہجہ کو بيانيہ جُز بنايا-- شادي بياہ، غم و الم اور موت مٹي کي رسومات سے واقف کرايا-

تحرير : پروفيسر صغير افراہيم

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان