• صارفین کی تعداد :
  • 3052
  • 12/29/2011
  • تاريخ :

خاتون کے سلسلے ميں اسلام کا طرز سلوک

حجاب والی خاتوت

خاتون کے ساتھ اسلام اور اسلامي جمہوري نظام کا سلوک مودبانہ اور محترمانہ ہے، خير انديشانہ، دانشمندانہ اور توقير آميز ہے- يہ مرد و زن دونوں کے حق ميں ہے- اسلام مرد و زن دونوں کے سلسلے ميں اسي طرح تمام مخلوقات کے تعلق سے حقيقت پسندانہ اور حقيقي و بنيادي ضرورتوں اور مزاج و فطرت سے ہم آہنگ انداز اختيار کرتا ہے- يعني کسي سے بھي قوت و توانائي سے زيادہ اور اس کو عطا کردہ وسائل سے بڑھ کر کوئي توقع نہيں رکھتا- خاتون کے سلسلے ميں اسلامي نقطہ نگاہ کو سمجھنے کے لئے اس کا تين زاويوں سے جائزہ ليا جا سکتا ہے-

اول: ايک انسان ہونے کي حيثيت سے روحاني و معنوي کمالات کي راہ ميں اس کا کردار؛ اس زاويے سے مرد اور خاتون ميں کوئي فرق نہيں ہے- تاريخ ميں جس طرح بہت سے با عظمت مرد گزرے ہيں، بہت سي عظيم اور نماياں کردار کي حامل خواتين بھي گزري ہيں-

دوم: سماجي، سياسي، علمي اور معاشي سرگرمياں؛ اسلام کے نقطہ نگاہ سے خاتونوں کے لئے علمي، اقتصادي اور سياسي فعاليت اور سرگرميوں کا دروازہ پوري طرح کھلا ہوا ہے- اگر کوئي اسلامي نقطہ نگاہ کا حوالہ دے کر خاتون کو علمي سرگرميوں سے محروم کرنے کي کوشش کر رہا ہے، اقتصادي فعاليت سے دور رکھنے کے در پے ہے يا سياسي و سماجي امور سے لا تعلق رکھنے پر مصر ہے تو وہ در حقيقت حکم خدا کے خلاف عمل کر رہا ہے- خاتونيں، جہاں تک ان کي ضروريات و احتياج کا تقاضا ہو اور جسماني توانائي جس حد تک اجازت دے، سرگرمياں انجام دے سکتي ہيں- جتنا ممکن ہو وہ سياسي و معاشي و سماجي امور انجام ديں، شريعت اسلامي ميں اس کي ہرگز مناہي نہيں ہے- البتہ چونکہ جسماني ساخت کے لحاظ سے خاتون مرد سے نازک ہوتي ہے لہذا اس کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہيں- خاتون پر طاقت فرسا کام مسلط کر دينا اس کے ساتھ زيادتي ہے، اسلام اس کا مشورہ ہرگز نہيں ديتا- البتہ اس نے (خاتون کو ) روکا بھي نہيں ہے- حضرت امير المومنين عليہ الصلاۃ و السلام سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہيں:

" المرآۃ ريحانۃ و ليست بقھرمانۃ" يعني خاتون پھول کي مانند ہے "قہرمان" نہيں-

"قہرمان" يعني با عزت پيش کار اور خدمت گار- آپ مردوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہيں: خاتونيں تمہارے گھروں ميں گل لطيف کي مانند ہيں ان کے ساتھ بڑي ظرافت اور توجہ سے پيش آۆ- خاتون آپ کي خادمہ اور پيش کار نہيں ہے کہ آپ سخت اور طاقت فرسا کام اس کے سر مڑھ ديں- يہ بہت اہم بات ہے-

يہ جو بعض افراد شادي سے پہلے شرط رکھ ديتے ہيں کہ خاتون ملازمت پيشہ ہو، اس کي اپني آمدني اور کمائي ہو، بالکل غلط ہے- البتہ خلاف شريعت تو نہيں ہے ليکن اسلام اس چيز کا مشورہ ہرگز نہيں ديتا- اسلام نے ايسي کوئي بات نہيں کہي ہے جس کو اساس بناکر ہم خاتون کو معاشي اور سماجي سرگرميوں ميں حصہ لينے سے روک ديں ليکن دوسري طرف اسلام نے يہ بھي نہيں کہا ہے کہ خاتون کو محنت شاقہ اور طاقت فرسائي کي متقاضي سياسي و سماجي و معاشي سرگرميوں ميں لگا ديا جائے- اسلام کا نظريہ اعتدال پسندانہ ہے- يعني خاتون کے پاس اگر فرصت ہے، بچوں کي پرورش اس کي راہ ميں حائل نہيں ہو رہي ہے، اس ميں شوق و دلچسپي اور جسماني طاقت و توانائي بھي ہے اور وہ سماجي، سياسي اور معاشي امور ميں حصہ لينا چاہتي ہے تو کوئي مضائقہ نہيں ہے- ليکن يہ کہ اسے مجبور کر ديا جائے اور اسے حکم ديا جائے کہ جاۆ جيسے بھي ممکن ہو روزگار تلاش کرو اور يوميہ اتنا کام کرو تاکہ اس آمدني سے گھر کے خرچ کا کچھ بوجھ تم اٹھاۆ، تو يہ مناسب نہيں ہے- اسلام نے خاتون کو ہرگز اس کا حکم نہيں ديا ہے- اسے خاتون کے ساتھ ايک طرح کي زيادتي قرار ديتا ہے-

ميں خاندانوں سے يہ سفارش کروں گا کہ وہ اپني لڑکيوں کو اعلي تعليم حاصل کرنے کا موقع ديں- يہ نہ ہو کہ کوئي ماں باپ دينداري کے جذبے کے نام پر اپني لڑکي کو اعلي تعليم حاصل کرنے سے روک ديں! نہيں، دين نے ہرگز يہ بات نہيں کہي ہے- دين کي نظر ميں تعليم کے لحاظ سے لڑکے اور لڑکي ميں کوئي فرق ہي نہيں ہے- اگر لڑکا اعلي تعليم حاصل کرتا ہے تو لڑکي بھي اعلي تعليم حاصل کر سکتي ہے- نوجوان لڑکيوں کو چاہئے کہ تعليم حاصل کريں، علم کي منزليں طے کريں، معلومات ميں اضافہ کريں- اپني اہميت اور مقام و منزلت سے آگاہ ہوں اور اپني قدر و قيمت کو سمجھيں، تاکہ انہيں يہ پتہ چلے کہ خاتون کے سلسلے ميں عالمي استکبار کے پروپيگنڈے کتنے کھوکھلے اور بے بنياد ہيں- تعليم کے ذريعے ان چيزوں کو سمجھا جا سکتا ہے-

سوم: خاتون کو خاندان اور کنبے کي ايک رکن کي حيثيت سے ديکھنا- يہ سب سے اہم اور با ارزش ہے- اسلام ميں مرد کويہ اجازت نہيں ہے کہ خاتون سے جبر و اکراہ کا برتاۆ کرے اور اس پر کوئي چيز مسلط کر دے- خاندان کے اندر مرد کے لئے محدود حقوق رکھے گئے ہيں جو در حقيقت بڑي حمکت آميز بات ہے- يہ حقوق جس کے سامنے بھي رکھے اور بيان کئے جائيں، وہ اس کي حمايت او تائيد کرے گا- اسي طرح خاتون کے لئے بھي خاندان کے اندر کچھ حقوق رکھے گئے ہيں اور ان ميں بھي بڑي مصلحت انديشي پوشيدہ ہے- مرد و زن دونوں کے اپنے مخصوص جذبات، مزاج، اخلاق اور خواہشات ہيں- وہ دونوں اگر اپنے اپنے جذبات اور خواہشات کے مطابق صحيح طور پر عمل کريں تو گھر ميں بڑا اچھا ہم آہنگ اور ايک دوسرے کے لئے سازگار جوڑا وجود ميں آ جائے گا- اگر مرد زيادتي کرتا ہے تو توازن بگڑ جاتا ہے، اسي طرح خاتون کوئي زيادتي کرے تو اس سے بھي توازن ختم ہو جاتا ہے- اسلام گھر کے اندر مرد اور خاتون کو دروازے کے دو پلوں، چہرے کي دو آنکھوں، محاذ زندگي کے دو مجاہدوں اور ايک دوکان ميں کام کرنے والے دو رفقائے کار کي حيثيت سے ديکھتا ہے- ان ميں ہر ايک کا اپنا مزاج، اپني خصوصيات، اپني خصلتيں ہيں- جسماني لحاظ سے بھي، روحاني لحاظ سے بھي، فکري لحاظ سے بھي او جذبات و خواہشات کے اعتبار سے بھي- يہ دونوں صنفيں اگر ان حدود اور معياروں کي پابندي کرتے ہوئے جس کا تعين اسلام نے کيا ہے ايک ساتھ زندگي بسر کريں تو ايک مضبوط، مہربان، با برکت اور انتہائي کارآمد کنبہ معرض وجود ميں آئے گا-

خامنہ اي ڈاٹ آئي آر

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں :

عورت اور قديم معاشروں کي بدقسمتي ( حصّہ ششم )