• صارفین کی تعداد :
  • 1886
  • 12/30/2011
  • تاريخ :

دين ،قرآن مجيد کي نظر ميں

قرآن حکیم

(ان الدّين عند اللّہ الاسلام ومااختلف الّذين اوتوا الکتاب الاّٰ من بعد ما جآ ء ہم العلم بغياً بينہم و من يکفر بايٰات اللّہ فا ن اللّہ سريع الحساب)

(آل عمران19)

''دين،اللہ کے نزديک صرف اسلام ہے اور اہل کتاب نے علم آنے کے بعد ہي جھگڑا شروع کيا صرف آپس کي شرارتوں کي بنا پر اور جو بھي آيات الہي کا انکار کرے گا توخدابہت جلد حساب کرنے والا ہے-''

 انبياء نے جس دين کي طرف لوگوں کو دعوت دي ہے وہ خدا پرستي اور اس کے احکام کے مقابلہ ميں  تسليم ہونا ہے-اديان کے علمائ،باوجود اس کے کہ حق کي راہ کو باطل سے تشخيص ديتے تھے ،تعصب ودشمني کي وجہ سے حق سے منحرف ہوکرہر ايک نے ايک الگ راستہ اختيار کيا ،اور نتيجہ کے طور پر دنيا ميں  مختلف اديان وجود ميں  آگئے -حقيقت ميں  لوگوں کے اس گروہ نے آيات الہي کي نسبت کفر اختيار کيا ہے اور خدائے متعال ان کے اعمال کي جلد ہي سزا دے گا:

(ومن يبتغ غير الاسلام ديناً فلن يقبل منہ وہو في الاخرة من الخٰاسرين)                                

(آل عمران 85)

 ''اور جو اسلام کے علاوہ کوئي بھي دين تلاش کرے گا تو وہ دين اس سے قبول نہ کيا جائے گا اور وہ قيامت کے دن خسارہ والوں ميں  ہوگا-''

( يا ايّہا الذين ء آمنوا ادخلوا في السّلم کافّةً ولا تتّبعوا خطوات الشيطان انہ لکم عدوّمّبين )          

(بقرہ 208)

 ''ايمان والو !تم سب مکمل طريقہ سے اسلام ميں داخل ہو جائو اور شيطاني اقدامات کا اتباع نہ کرو وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے-''

 (واوفوا بعہد اللّہ اذاعٰاہد تّم ولا تنقضوا الايمٰان بعدتوکيدہٰا وقد جعلتم اللّہ عليکم کفيلا ان اللّہ يعلم ماتفعلون)                                              

(نحل 91)

 '' اور جب کوئي عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو اور اپني قسموں کو ان کے استحکام کے بعد ہرگز مت توڑو جب کہ تم اللہ کو کفيل اور نگران بنا چکے ہو کہ يقينا اللہ تمہارے افعال کو خوب جانتا ہے-''

اس آية شريفہ کا مقصد يہ ہے کہ، مسلمان جو بھي عہد و پيمان خدا يا بندوں سے کريں ، انھيں اس پر عمل کرنا چاہئے اور اسے نہ توڑيں -

 (ادع الي سبيل ربّک بالحکمةوالموعظة الحسنة وجٰادلہم بالّتي ہي احسن ان ربّک ہو اعلم بمن ضلّ عن سبيلہ وہو اعلم بالمہتدين)                                                       

(نحل 125)

 ''آپ اپنے رب کے راستہ کي طرف حکمت اور اچھي نصيحت کے ذريعہ دعوت ديں اور ان سے اس طريقہ سے بحث کريں جو بہترين طريقہ ہے کہ آپ کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بہک گيا ہے اور کون لوگ ہدايت پانے والے ہيں -''

مقصد يہ ہے کہ،دين کي ترقي کيلئے مسلمان کو ہر ايک کے ساتھ اس کي عقل وفہم کے مطابق اس کے لئے مفيد ہو ،اور اگردليل و برہان اور نصيحت سے کسي کي راہنمائي نہ  کر سکا ،تو جد ل (جو کہ مطلب کو ثابت کر نے کا ايک طريقہ ہے )کے ذريعہ اس کو  حق کي طرف دعوت دے-

  (واذا قري القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلّکم ترحمون)     

(اعراف 204)

 ''اور جب قرآن کي تلا وت کي جائے تو خاموش ہو کر غور سے سنو شايد تم پررحمت نازل ہو جائے -''

(يا ايّہا الّذينء امنوا اطيعوا اللّہ و اطيعوا الرّسول و اولي الامرمنکم فان تنٰازعتم في شي ئٍ فرُدّوہ الي اللّہ و الرّسول    ان کنتم  تومنون باللّہ و اليوم الاٰخر ذلک خير واحسن تاويلا)                                   

  ( نسائ59)

''ايمان والو! اللہ کي اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کي اطاعت کرو جو تمھيں ميں  سے ہيں ،پھر اگر آپس ميں کسي بات ميں  اختلاف ہو جائے تو اسے خدا اور رسول کي طرف پلٹا دو اگرتم اللہ اورروزآخرت پر ايمان رکھنے والے ہو ،يہي تمہارے حق ميں  خير اورانجام کے اعتبار سے بہترين بات ہے-''

 مقصد يہ ہے کہ اسلامي معاشروں ميں  ، اختلاف دور کرنے کا وسيلہ ،قرآن مجيد اور پيغمبراسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ارشادات کے علاوہ کوئي اور چيز نہيں ہے،اور ان دودليلوں کے ذريعہ ہر اختلاف کو حل کرنا چاہئے اوراگر کسي مسلمان نے عقل سے اختلاف دور کيا،تووہ بھي اس لئے ہے کہ قرآن مجيد نے عقل کے حکم کو قبول کيا ہے -

 (فبما رحمةٍ من اللّہ لنت لہم ولو کنت فظّاً غليظ القلب لانفضّوا من حولک فاعف عنہم واستغفر لہم و شاورہم في الامر فاذا عزمت فتوکل علي اللّہ ان اللّہ يحبّ المتوکّلين)                                        

(آل عمران 159)

 ''پيغمبر! يہ اللہ کي مہر باني ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ہوتے تو يہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے ،لہذا تم انھيں معاف کر دو -ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے جنگ کے امورميں  مشورہ کرو اور جب ارادہ کرو تو اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''

 کيونکہ نيک برتائو ،خير خواہي اور امور ميں  مشورہ کرنا ،انس ومحبت کا وسيلہ ہے اورمعاشرہ کے افراد کو اپنے سر پرست سے محبت کرني چاہئے تاکہ وہ ان کے دلوں ميں  نفوذ کر سکے- خدائے متعال مسلمانوں کے سر پرست کو خوش اخلاقي اور مشورہ کا حکم ديتا ہے،اور يہ حکم اس لئے ہے کہ ممکن ہے لوگ اپني سوچ ميں  غلطي کريں لہذا حکم ديتا ہے کہ مشورت کے بعد اپنے فيصلہ ميں  آزاد ہو اور اس لئے کہ خدا کے ارادہ سے کوئي مخالفت نہيں کر سکتا ہے ،اپنے امور ميں  خدا پر توکل کرکے اپنے کام اسي کے سپرد کرے -

ماخوذ از کتاب "ديني تعليم "  علامہ طباطبائي،مرتبہ: سيد مہدي آيت اللہي -

مترجم،سيد قلبي حسين

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان