• صارفین کی تعداد :
  • 1440
  • 11/11/2011
  • تاريخ :

 عادل، زاہد، مدبّر

بسم الله الرحمن الرحیم

اگر تاريخ سرور کائناتغ– کا مطالعہ کيا جائے اور پيش آنے والے حوادث و واقعات پر ايک نظر ڈالي جائے توان قبائلي جنگوں، دشمن کومکہ سے نکال کر صحرائوں اور بيابانوں تک کھينچ لانا، اس پئے در پئے ضربيں لگانا، وہ دشمنوں سے ٹکراو و غيرہ وغيرہ   تو حضور (ص)  کي ہمہ گير قوت تدبير اور حکمت آميز دور انديشي انساني شعور کو انگشت بدنداں کرديتي ہے-

قانون کے ايسے محافظ تهے کہ اس کي پامالي برداشت نہيں کرتے تھے- جس طرح دوسروں پر قانون کا اتباع لازمي جانتے تھے اسي طرح خود بھي اس کا پاس و لحاظ رکھتے تھے، متعدد قرآني آيات نے اس بات کي تائيدکي ہے- جن قوانين کو آپ (ص) نے لوگوں پر واجب قرار ديا تھا ان پر خود بھي بطور کامل عمل پيرا ہوتے تھے اور اس سے سرپيچي آپ (ص) کے نزديک کسي صورت ميں قابل قبول نہ تھي- جنگ بني قريظہ کے دوران اس قبيلہ سے تعلق رکھنے والے خائن يہوديوں کو قتل کرديا گيا، باقي افراد کو اسير بنا ليا گيا اور ان کي دولت و ثروت کو اپنے اختيار ميں لے ليا گيا، چند ازواج پيغمبر نے آپ (ص) کے حضور يہ عرض کي کہ يا رسول اللہ! يہوديوں سے حاصل شدہ مال و زر اور طلا و جواہرات ميں سے کچھ ہميں بھي عطا فرمائيے ليکن پيغمبر خداغ– نے ان کي اس خواہش کو قبول نہ کيا جبکہ يہ ازواج آپ (ص) کے نزديک محبوب تھيں اور آپ (ص) ان کے ساتھ بڑي خوش اخلاقي کے ساتھ پيش آتے تھے- جب ان ازواج کے اصرار ميں شدت آئي تو حضورغ– کے رويہ ميں بھي تبديلي آئي اور آپ (ص) نے ان سے مہينہ بھر تک دوري اختيار کي- يہ واقعہ ان آيات کے نزول کا سبب بنا: ]يا نساء النبي لستنّ کحدٍ من النسائ[ ، ] يا ايھا النبي قل لازواجک ان کنتنّ تردن الحيۃ الدنيا و زينتھا فتعالين امتعکنّ و اسرحکن سراحاً جميلاً و ان کنتن تردن اللّٰہ و رسولہ و الدار الآخرۃ فن اللّٰہ اعدّ للمحسنات منکن اجراً عظيماً[ حضور (ص) نے ان کے لئے يہ بات واضح کردي کہ اگر ميرے ساتھ زندگي بسر کرنا چاہتي ہيں تو جان ليجئے کہ يہ زندگي بڑي زاہدانہ ہے جس ميں قانون سے سرپيچي ممکن نہيں ہے-

ولي امر مسلمين حضرت آيت اللہ سيد علي خامنہ اي کے خطاب سے اقتباس

(خطبات نماز جمعہ، تہران، 1379-2-23)

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

روزي کو کم و زيادہ کرنے والے عوامل (دوسرا حصّہ)

روزي کو کم و زيادہ کرنے والے عوامل

ديني غيرت کو فراموش مت کريں (حصّہ دوّم)

ديني غيرت کو فراموش مت کريں

صفائي پسندي تکلف نہيں ہے