• صارفین کی تعداد :
  • 762
  • 11/11/2011
  • تاريخ :

قوميت کي تعمير ميں زبان کي اہميت (حصّہ چهارم)

سوالیہ نشان

بلاشبہ پاکستاني ادب پاکستان ميں بولي جانے والي زبانوں کے ادب پر مشتمل ہے ليکن يہ بھي ايک حقيقت ہے کہ اس ميں سب سے نماياں، وسيع اور منفرد اظہار اردو زبان ہي کے وسيلے سے ہوا ہے اس کي بڑي وجہ يہ ہے کہ اردو دوسري زبانوں کي نسبت اپنا لساني اور تخليقي دائرہ زيادہ وسيع رکھتي ہے اس ميں تحريري ادب زيادہ ہے کتب و اخبارات اور رسائل وجرائد ميں اردو زبان وادب کا مواد زيادہ دستياب ہے نيز جامعات ميں تدريس اور تنقيدي و تحقيقي حوالوں سے اردو کاکام بحيثيت مجموعي دوسري زبانوں سے زيادہ حجم (Volume) کا حامل ہے- گزشتہ آٹھ سالوں ميں لکھے جانے والے ادب کا جائزہ ليا جائے تو ہميں اندازہ ہوگا کہ اہل قلم کے ذاتي مشاہدات و تجربات اور محسوسات و خيالات کے ساتھ ساتھ اجتماعي مسائل و احوال کے بيان ميں اردو کي خدمات قابل قدر ہيں اردو ادب ملي امنگوں کا ترجمان بھي رہا ہے اور اس کے ذريعے قومي تشکيل National Constructionکي بھي کئي صورتيں پيدا ہوئي ہيں-

يہاں ايک اور مسئلے کي نشاندہي بھي ضروري ہے- وہ يہ کہ پاکستان ميں بولي جانے والي اردو کا معيار کيا ہونا چاہيے- ظاہر ہے کہ دکن، دلي اور لکھنۆ سے ہوتے ہوئے اردو کے لساني رويے اور خدوخال وقت کے اثرات اور تبديليوں سے دو چار ہوتے رہے- پاکستان ميں بولي جانے والي اردو کي صورت اب اردوئے معليٰ کي نہيں- بلکہ عام بول چال اور اخبارات ورسائل ميں نظر آنے والي زبان کي ہے- ويسے بھي زبان کے کئي درجے اور معيارات ہوتے ہيں- بقول شان الحق حقي:

"------- ايک جمے جمائے معاشرے ميں ہر زبان کي ايک معياري بولي ہوتي ہے اور کئي فروعي يا تحتي بولياں جو اس کے اردگردرستي بستي ہوں ايک انگريز مصنف Erntwistle نے اس کا نقشہ يوں پيش کيا ہے کہ زبانوں کي ايک کھڑي تقسيم ہوئي ہے اور ايک پڑي تقسيم --- ڈايليکٹ افقي يا پڑي تقسيم ميں آتے ہيں ان کا اختلاف جغرافيائي يا مقامي ہوتا ہے کھڑي يا عمودي تقسيم طبقہ داري ہوتي ہے-"

ايک اور مصنف Eric Partrige نے اپني کتاب Slang and Standard English ميں انگريزي زبان کي حسب ذيل تحتي بولياں گنوائي ہيں-

Standarad … ents … -Slang … -Colloqinal … -Vulgarism

اور اسٹينڈرڈ انگلش کے تين مدارج قرار دئيے ہيں-

Familiar English – Ordinary English – Literary English

ميں اس تقسيم  سے متفق نہيں ادبي زبان کو اس طرح عام بول چال اور روزمرہ سے الگ کرنا ايک بے تکي اور فرسودہ سي بات ہے ليکن دراصل معيار کا پورا مسئلہ ہي نئے سرے سے نمودوفکر کا محتاج ہے-(12)

پاکستاني قوم کے اجتماعي شعور اور اس کے تہذيبي ثمرات (دانش و فرہنگ، ادبيات و شعريات اردو زبان کے مختلف اساليب وانداز وغيرہ) اسي صورت ميں حاصل ہوسکتے ہيں جب آبادي کے وسيع ترطبقے کے لساني وثقافتي تجربات اور معمولات کو اردو زبان کا رسمي حصہ ہي نہ بنايا جائے بلکہ اسے ايک قابل قبول فرہنگ مشترک کے معيار تک لايا جائے- "فرہنگ مشترک" کے عنوان سے ڈاکٹر پرويز ناتل خانلري اپنے مضمون کا آغاز ہي ايک ايسے مسئلے سے کرتے ہيں-

"يکي ازاموري کہ درآن کثرت شريکان مطلوب بہ مايہ رونق و اعتبار است فرہنگ ملي است- فرہنگ ہر قوم محصول انديشہ بہ ذوق بہ تجربہ ہائي عمود افراد آن درگزشتہ وحال مي باشد- ازايں جاست کہ ہر چہ قلمرو فرہنگي وسيع ترباشد گروہي بزرگ تردرايجاد و تکميل آں مي کو شند واز کوششِ ايشاں نتيجہ اي عظيم تروکامل تر حاصل ميشود --------------

ايں زبان البتہ دراصل بہ يکي ازنواحي آن سرزمينِ اختصاص داشتہ است اما پس ازآنکہ ايں طريق توسعہ و کمال يافت ديگر بہ ناحيہ خاصي تعلق ندارد بلکہ زبان مشترک ہمہ مردماں آن سرزمين محسوب ميشود" (13)

پاکستان ميں فرہنگ مشترک کے عظيم اور کامل تر ثمرات حاصل کرنے کے ليے اس خطہ زمين ميں رہنے والے تمام علاقائي گروہوں کي اجتماعي دانش اور ان کي زبانوں اور لوک دانائي کو ايک قرينے اور شائستگي سے اردو زبان کا حصہ بنانا ہوگا-

پاکستان ميں اردو کے معيار کے ساتھ ساتھ علاقائي کے تنوع اور ان کے اثرات سے انکار مشکل ہے اردو مقامي زبانوں کي ہم رشتہ ہے ان ميں معنوي اور قواعدي مماثلتيں اور بڑا اشتراک ہے اردو لغت، جسے اردو ڈکشنري بورڈ کراچي کے زير اثر مرتب کيا جارہا ہے اور جو تکميل کے آخري مراحل ميں ہے اردو کے ايک معيار کو سامنے لاتي ہے اس لغت ميں الفاظ کو ان کے اصل اور اشتقاق کے ساتھ ساتھ مختلف تاريخي ادوار کي مثالوں کے ساتھ پيش کيا گيا ہے-


 متعلقہ تحريريں :

ساقي اٹھ تلوار اٹھا