• صارفین کی تعداد :
  • 2074
  • 11/11/2011
  • تاريخ :

قرآن سب سے بڑي بيماري کي دوا

قرآن حکیم

البتہ ممکن ہے مذکورہ باتيں مغرور انسانوں کے ذوق کے موافق نہ ہوں اور ان لوگوں کواچھي نہ لگيں جو کہ تقوائے الٰہي اور قرآن واہلبيت  کے علوم سے بالکل بے بہرہ ہيں نيز بشري علوم کي چند اصطلاحيں جاننے کے سبب اپنے کو خداوندمتعال کے مقابل سمجھتے ہيں، ليکن ہر عقلمند انسان اعتراف کرتا ہے کہ انسان نے جو کچھ اپني نت نئي علمي ترقيوں کے ساتھ انکشاف اور ايجاد کيا ہے وہ اس کي مجہول و نامعلوم باتوں کے مقابل ايسا ہي ہے جيسے سمندر کے مقابل ايک قطرہ، اور انساني مدينہء فاضلہ کا نمونہ پيش کرنے ميں تمام غير الٰہي اخلاقي مکاتب فکر کے نظريات اوردعوے، خدا کے لامحدود علم اور علوم اہلبيت (جن کا سرچشمہ الٰہي الہامات ہيں) کے مقابلہ ميں  صفر سے زيادہ کچھ نہيں ہيں-

بہرحال حضرت علي  ـ انساني معاشرہ کي سب سے بڑي بيماري کفر و نفاق اور گمراہي کو جانتے ہيں- يہي روحي بيمارياں ہيں جو کہ معاشرہ کو مختلف مشکلوں اور پريشانيوں سے دوچار کرتي ہيں اور ان کا علاج بھي قرآن ہي سے حاصل کرنا چاہئے: '' فَاِنَّ فِيہِ شِفَائً مِن اَکْبَرِ الدَّائِ وَ ہُوَ الْکُفْرُ وَ النِّفَاقُ وَ  الْغَيُّ وَ الضَّلاَلُ '' سب سے بڑي بيماري سے مراد کفر و نفاق اور ضلالت و گمراہي ہے، اور دوا اور علاج سے مراد قرآن پر ايمان اور اس کي پيروي ہے-

البتہ توجہ رکھني چاہئے کہ يہ بات (کہ اپني بيماريوں کي دوا قرآن سے طلب کرو، اس لئے کہ قرآن تمام مشکلات اوربيماريوں کي دوا ہے)، اس کا مفہوم يہ نہيںہے کہ قرآن نے ڈاکٹر کے نسخہ کے مانند تمھارے جسماني امراض کو بيان کرديا ہے اور ہر ايک مرض سے شفايابي کے لئے ايک دوا کا مشورہ ديا ہے يا اقتصادي و فوجي مشکلات کے باب ميں نيز صنعت اور ٹکنالوجي کے شعبوں ميں مسائل کے حل کے فارمولوں کو قرآن سے لينا چاہئے، جو شخص ديني معارف سے ذرا سا بھي واقف ہے وہ ہرگز حضرت علي  ـ کے اس کلام کي توضيح ا س معني ميں نہيں کرتا، اس لئے کہ جسماني بيماريوں اور بقيہ تمام مشکلات کا حل اپنے طبيعي وسيلوں کا محتاج ہے، قرآن کريم ان مشکلات کے حل کے لئے جيسا کہ پہلے ذکر کيا گيا کلي اصولوں کو بيان کرتا ہے اب لوگوں کا فريضہ ہے کہ قرآن کے ان کلي اصولوں کو سر مشق اور نمونہ قرار ديکر نيز عقل، خداداد قوتوں اور انساني علوم کے تجربوں سے استفادہ کر کے اپنے مشکلات کو حل کريں اور اپني بيماريوں کا علاج کريں-

يہاں پر ہم عزيز قارئين کي توجہ دو نکتوں کي طرف مبذول کر رہے ہيں:

پہلا نکتہ* يہ ہے کہ طبيعي اور مادي اسباب و علل اگرچہ اپنے معلول اور مسبب کو مستلزم ہيں، ليکن اس نکتہ کي طرف توجہ کرنا بھي ضروري ہے کہ تمام موجودات کي علت العلل خداوند تبارک و تعاليٰ کي ذات اقدس ہے- اسي نے عالم کے نظام کو علت و معلول کے رابطہ کي بنياد پر خلق کيا ہے اور وہي ہميشہ اسباب و علل کو سببيت اور عليت عطا کرتا ہے اور يہ اس کا تکويني ارادہ ہے اور جب تک يہ تکويني ارادہ نہ ہوگا اس وقت تک کسي فعل کا براہ راست کوئي اثر نہيں ہوگا-

اس بنا پر تمام دردوں کي دوا اور تمام مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہميں چاہئے کہ بنيادي طور پر خداوند متعال کي طرف توجہ کريں اور چشم اميد اسي کي طرف رکھيں، اگرچہ مشکلات کو حل کرنے ميں اور بيماري سے شفا حاصل کرنے ميں طبيعي اسباب و علل کا بھي سہارا ليں ليکن توحيد افعالي کے اقتضاء کي بنا پر شفا اور مشکلات کے حل کو اصل ميں اسي سے سمجھنا چاہئے اور اسي سے اميد رکھنا چاہئے-

دوسرا نکتہ* يہ ہے کہ مشکلات کے حل اور بيماريوں کے علاج کا راستہ فقط عادي اور طبيعي اسباب و علل ميں منحصر نہيں سمجھنا چاہئے، يعني ايسا نہيںہے کہ مشکلات کے حل ميں مادي اور طبيعي اسباب و علل نہ پائے جانے سے يا ان کے مفيد و کارآمد نہ ہونے سے مشکل کے حل، بہبودي کے حصول، امراض کي شفا يا انسان کي جائز اور برحق خواہشات کے پورا ہونے کا امکان نہ ہو-

خداوند متعال نے علّي اور معلولي نظام خلق کرکے اپنے کو غير طبيعي طريقے سے کوئي شے ايجاد کرنے سے عاجز نہيں کيا ہے، بلکہ سنت الٰہي اس بات پر قائم ہے کہ پہلے مرحلہ ميں امور عادي اور طبيعي راستے سے انجام پائيں، ليکن امور کا انجام پذير ہونا طبيعي طريقہ ميں منحصر نہيں ہے بلکہ خاص حالات ميں خداوند متعال کچھ امور کو طبيعي راستے کے بغير بھي خود ايجاد کرتا ہے کہ اس کو بھي سنت الٰہي کہا جاسکتا ہے- مرض سے شفا اور بہبودي ممکن ہے طبيعي راستے سے اور ڈاکٹري علاج سے واقع ہو اورممکن ہے کہ خاص شرائط و حالات کے تحت غير مادي علتوں کے واسطے سے، جيسے ائمہء معصومين  ظھ يا دوسرے اولياء خدا کي دعا سے حاصل ہو جائے- جيسا کہ ممکن ہے محاذ توحيد کے مجاہدين مادي وسائل اور اسلحہ نيز طبيعي حالات کے اعتبار سے دشمن کے مقابل (لوگوں کي نظر ميں) شکست کھانے والے ہوں، ليکن غيبي امداد اور غير طبيعي اسباب کے ذريعے فتحياب ہو جائيں کہ يہ بات بھي الٰہي اسباب و علل ميں سے سمجھي جاتي ہے-

قرآن کريم ميں ايسے واقعات کے بہت سے نمونے مذکور ہيں جو کہ غير مادي اور غير طبيعي اسباب کے راستے سے واقع ہوئے ہيں، مثال کے طور پر نزول باران اگر طبيعي اسباب و عوامل کے راستے سے واقع ہو تو ضروري ہے کہ دريا اور سمندروں کا پاني سورج کي دھوپ اور گرمي کي تپش سے بخار اوربھاپ بن کر بادل کي صورت اختيار کريں، پھر دريا اور خشکي کے درجہء حرارت کے نتيجے ميں ہوا چلنے سے بادل درياğ کے اوپر سے زمين کے تمام علاقوں ميں منتقل ہو جائيں تاکہ خاص حالات کے تحت بادل ميں موجود پاني، بارش کے قطروں، يا برف کے دانوں يا اولوں کي صورت ميں زمين پر برسے-

بارش کي اميد اس کے طبيعي اسباب و علل کے بغير، مادي نظر سے ايک بيجا اور نامعقول اميد سمجھي جاتي ہے، ليکن حضرت نوح  ـ نزول باران کے لئے طبيعي عوامل کو نظر ميں رکھے بغير اپني قوم کو خطاب کرکے فرماتے ہيں کہ استغفار اور توبہ کرو تا کہ آسمان سے تم پر موسلا دھار بارش ہو، (وَ يَا قَومِ اسْتَغفِرُوا رَبَّکُم ثُمَّ تُوبُوا ِلَيہِ يُرسِلِ السَّمَائَ عَلَيکُم مِدْرَاراً وَ يَزِدْکُم قُوَّةً ِلٰي قُوَّتِکُمْ وَ لاتَتَوَلَّوْا مُجرِمِينَ)1 اے ميري قوم والو! اپنے پروردگار سے استغفار کرو پھر اسي کي طرف ،ہمہ تن گوش ہو جاؤ اور اس کي طرف پلٹ آؤ تاکہ خداوند متعال آسمان سے تم پر موسلادھار بارش نازل کرے اور رحمت الٰہي اور بارش کے نزول کے ذريعہ تمھاري موجودہ قوت کو اور قوت ديکر زيادہ کردے، پھر فرمايا: (وَ لاتَتَوَلَّوا مُجرِمِينَ)، خبردار! توبہ و استغفار کے بغير اور اس حال ميں کہ تم مجرم و گنہگار ہو خدا سے منھ مت پھيرو او راپنے کو رحمت الٰہي سے محروم مت کرو-

اگر چہ نزول باران کے طبيعي اسباب و علل اور طبيعت ميں جاري تمام علّي و معلولي نظام، سب قدرت الٰہي کے ہاتھ ميں ہيںاور اسي کے ارادے سے کام کرتے ہيں، ليکن اسي کے ساتھ ساتھ طبيعي اسباب و عوامل کو نظر ميں رکھے بغير خداوند متعال فرماتا ہے کہ تم اپنے گناہ سے استغفار کرو اور خدا کي طرف واپس آجاؤ، ہم آسمان سے کہہ ديں گے کہ تم پر موسلادھار برسے-

ممکن ہے کوئي يہ کہے کہ خداوند متعال کا مقصود يہ نہيں ہے کہ طبيعي عوامل کے تحقق کے بغير بارش نازل ہو، بلکہ مقصود يہ ہے کہ ہم طبيعي عوامل کو پيدا کر کے تم پر بارش برسائيں گے-

اس کا جواب يہ ہے کہ يہ نظريہ توحيدي مکتب فکر کے موافق نہيں ہے، اس لئے کہ جيسا کہ اس سے پہلے ذکر کيا گيا، ايسا نہيں ہے کہ خداوند متعال نے علّي و معلولي نظام کو خلق کر کے، طبيعي اسباب و علل کے بغير موجودات کو ايجاد کرنے سے اپنے کو عاجز کر رکھا ہے- خداوند متعال موجودات کي ايجاد و خلقت پر اپني قدرت کے متعلق اس طرح فرماتا ہے: (اِذَا اءَرادَ شَيئاً اءَن يَّقُولَ لَہُ کُن فَيَکُوْن)1 جب بھي خداوند متعال کسي شے سے يہ کہنے کا ارادہ کرتا ہے کہ ہو جا، تو وہ شے فوراً ہوجاتي ہے-