• صارفین کی تعداد :
  • 1343
  • 11/3/2011
  • تاريخ :

قوميت کي تعمير ميں زبان کي اہميت

اردو کے حروف تہیجی

 قوميت جسے انگريزي لفظ Nationality  کا اردو متبادل کہہ سکتے ہيں- سياسي اصطلاح ہونے کے ساتھ مختلف تہذيبي، ثقافتي، مذہبي، معاشرتي اور ادبي جہتوں اور سلسلوں پر ممشتمل ايک اہم جغرافيائي اور تمدني اصطلاح ہے جو گزشتہ صدي سے کچھ زيادہ ہي زير بحث چلي آرہي ہے خصوصاً پہلي جنگ عظيم کے بعد دنيا جس نئے نقشے سے متعارف ہوئي اس سے قوميت کي اصطلاح کے کئي نئے مفاہيم سامنے آئے عمرانيات اور سياسيات سے تعلق رکھنے والے دانشوروں نےاپنے اپنے حوالے سے اس لفظ کي تفسيروتشريح کي يہ تشريح اپنےطور پر ايک جداگانہ مطالعے کي متقاضي ہے اس تشريحي مواد ميں قوميت کي لغوي معنويت سے اس کے اصطلاحي مفاہيم تک ايک طويل سلسلہ بحث ملتا ہے- قوميت کي تشريح جغرافيہ کے حوالے سے بھي ہوئي اور سياسي وتاريخي سياق و سباق ميں بھي اس پر روشني ڈالي گئي ان تمام تشريحات ميں جو عناصر مشترک ہيں وہ کچھ يوں ہيں- قوميت کا تعلق انساني گروہ اور معاشرے سے ہے- انسانوں کے ليے ايسے ہجوم گروہ اور آبادي سے جو --------------

1-         کسي جغرافيائي اکائي ميں سکونت پزيرہو يہ جغرافيائي اکائي جديد سياسي اصطلاح ميں کوئي خطہ زمين، رياست، صوبہ يا ملک ہوسکتا ہے-

2-         جس کے رہنے والے اپنے سماجي رويوں اور مذہبي اقداروروايات اور تہذيبي وثقافتي رسومات ميں مماثلت رکھتے ہوں-

3-         ان کا تہذيبي وثقافتي اثاثہ اور علم ودانش کا سرمايہ مشترک صفات کا حامل ہو-

4-         جن کے اندر ايک لساني وحدت اور زبان وبيان کي يک رنگي موجود ہو-

تعجب کي بات ہے کہ مذکورہ بالاجغرافيائي، سماجي، مذہبي، تہذيبي و ثقافتي اقداروروايات کي مماثلت کے باوجود يہ سب کچھ قوميت کي تعريف پر ہو بہو پورا نہيں اترتا اگر جغرافيہ کو قوميت کي بنياد مانا جائے تو پھر وہ کُروہ کہاں جائيں گے جو ايران ترکي اور قبرص کئي ملکوں ميں بٹے ہوئے ہيں- کشميري قوم بھارت اور پاکستان ميں منقسم ہے زبان کو اس کي بنياد جانا جائے تو ہم متعدد ملکوں عراق، سعودي عرب، کويت، شام، مصر، اردن وغيرہ کو ديکھتے ہيں کہ عربي زبان بولنے والے يہ ملک ايک قومي وحدت ميں منسلک نہيں اگر مذہب کو قوميت کا لازمي جزقرار ديا جائے تو ملائيشياء پاکستان ايران اور متعدد عرب ملک اسلامي ملک ہوتے ہوئے بھي ايک قوميت نہيں کہلاتے-

جغرافيہ زبان اور مذہب کے اشتراک کےباوجود مختلف ملک مختلف قوميتوں کے حامل ہيں بعض صورتوں ميں ہم ايک خطہ زمين، رياست يا ملک کے اندر کلچر اور زبان کي بنياد پر مختلف قوميتوں کے جداگانہ رنگ روپ ديکھتے ہيں يوگوسلاويہ اس کي تازہ مثال ہے جہاں صديوں سے آباد لوگ اب بوسنيا، ہرزيگوينا، کوسووو اور دوسري جغرافيائي اکائيوں اور رياستوں ميں اپنا اپنا قوامي سفر از سرنوشروع کر رہي ہيں اسي طرح يہ بھي ايک حقيقت ہے کہ بنگلہ ديش پاکستان سے الگ ہو کر بھي اپنے جداگانہ وجود پر مطمئن ہے اگر زبان کسي مشترکہ قوميت کي ناگزير بنياد ہوتي تو مشرقي اور مغربي بنگال کب کے مل چکے ہوتے بنگلہ ديش ميں مشترکہ لساني خصوصيات کے سبب کبھي مغربي بنگال سے الحاق کرنے کا تصور تک نہيں کيا گيا- يورپ کے بہت سے ملک بھي جغرافيائي قربت اور لساني يکسانيت کے باوجود الگ الگ ملکوں کے باشندے ہيں تہذيب وثقافت کا اشتراک بھي کلي طور پر انہيں ايک قوم نہيں بناتا حالانکہ انگلينڈ آئرلينڈ سکاٹ لينڈ اور اسي طرح سکينڈے نيوين ممالک ناروے، ڈنمارک اور سويڈن وغيرہ کئي مشترک تہذيبي مماثليں رکھتے ہيں- معروف فرانسيسي ماہر لسانيات مؤرخ اور ناقد ارنسٹ ريناں (Ernest Re-Nan) نے اپني معروف کتاب "قوم کيا ہے"؟ (Quest-ee-Qu’ane Nation) مطبوعہ پيرس 1882ميں قوم اور قوميت کے مسائل پر مختلف پہلوğ سے بحث کي ہے- وہ کہتے ہيں کہ

"فرانسيسي قوم کلٹني، آئي بيريائي، اور ٹيوٹني نسل سے تعلق رکھتي ہے- جرمن قوم ٹيوٹني، کلٹني اور اسلاني نسل سے تعلق رکھتي ہے- اس نوع کا نسلي مرکب ہريورپي ملک ميں پايا جاتا ہے- تو پھر کيا ايک مشترکہ زبان ايک قوم کي تشکيل کرتي ہے؟ ريناں کے بقول کہ "زبان لوگوں کو متحدہ تو کرتي ہے مگر انہيں ايک عام قوميت تسليم کرنے پر مجبور نہيں کرتي- برطانيہ، رياست ہائے متحدہ امريکہ يا سپين اور لاطيني امريکہ ميں ايک مشترک زبان قوميت کے اصول کو قائم نہ کرسکي- جبکہ سويٹزرلينڈ ميں جہاں تين زبانيں بولي جاتي ہيں خود کو ايک قوم ميں ڈھال ليا- ------

سو------ ثابت ہوا کہ بہت سي ايسي يک رنگيوں کے باوجود جو مذہبي، تہذيبي، لساني اور ثقافتي رويوں سے متعلق ہيں قوميت کے بنيادي عناصر واضح نہيں يہ بھي ايک بديہي امر ہے کہ قوميت کا مفہوم انہيں مماثلتوں اور مشترک اقداروروايات سے مل کر ترتيب پاتا ہے جو جغرافيہ، نسل، تہذيب، ثقافت، مذہب اور زبان کے مظاہر سے تعلق رکھتي ہيں-

برصغيرپاک و ہند کے مسلمان قوميت کے ايک عظيم، منفرد اور تاريخ ساز تجربے سے گزرے بيسويں صدي کے آغاز ميں پيدا ہونے والي سياسي تحريکوں اور ان کے ردعمل سے پيدا ہونے والے حالات و واقعات نے يہاں دو قومي نظريہ کو جنم ديا اگرچہ اس نظريے کي ارتقائي شکليں تحريک قيام پاکستان سے بہت پہلے سے نظر آنا شروع ہوجاتي ہے مگر علامہ اقبال کے تصورات اور قائداعظم محمد علي جناح کي فراست نے اس نظريے کے خدوخال واضح اور مربوط کئے اور يوں برصغير پاک و ہند ميں مذہب، تہذيب و ثقافت، رہن سہن اور کلچر کے فرق کے سبب ايک ہي خطہ زمين ميں رہنے والے لوگ دو مختلف قوميں قرار پائے اس بارے ميں قائداعظم محمد علي جناح کا يہ جملہ تاريخ ساز حقيقت کا مظہر ہے کہ "پاکستان تو اسي دن بن گيا تھا جب يہاں ہندو نے پہلي بار اسلام قبول کيا تھا-"

اس جملے کي معنويت شايد نئي نسل پر پوري طرح منکشف نہ ہو ليکن اگر تاريخ کے باطن ميں اتر کر کئي صديوں پہلے کي فضا ميں جھانکا جائے تو پتہ چلے گا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ ہندو اپني برادري سے عليحدہ رہنے پر مجبور کرديا گيا تھا اس کے ساتھ تہذيبي وثقافتي مقاطع کے سبب اس کو اپنے ساتھ بٹھانے، اپنے پيالہ ميں پاني پينے سے منع کردياگياتھا- لہذٰا وہ ايک خطہ زمين، ايک نسل خاندان اور بعض صورتوں ميں ايک ہي گھر ميں رہنے اور ايک زبان بولنے کے باوجود دوسروں سے مختلف ہوگيا رہن سہن کے بعض يکساں طريقوں کے باوجود اپني مذہبي اقدار کے سبب ايک مختلف قوم کا فرد بن گيا اس کي يہي بدلي ہوئي ذہني کيفيت جو قبوليت اسلام کے بعد پيدا ہوئي اسے پرانے ہم قوموں سے ايک جدا قوم گردانتي ہے دو قومي نظريہ کي بنياد ہندوستاني مسلمانوں کا يہي اختلاف اور امتياز ہے علامہ اقبال نے وطنيت اور قوميت کے اس فرق کو اپني ايک نظم بعنوان وطنيت (يعني وطن بحيثيت ايک سياسي تصور کے) ميں واضح کيا ہے- اقبال وطن کے سياسي تصور کي نفي کرتے ہوئے کہتے ہيں کہ

ان تازہ خداğ ميں بڑا سب سے وطن ہے

جو پيرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

يہ بت کہ تراشيدہ تہذيب نوي ہے

غارت گر کاشانہ دين نبوي ہے

بازو ترا توحيد کي قوت سے قوي ہے

اسلام ترا ديس ہے تو مصطفوي ہے

اور ----------------

گفتار سياست ميں وطن اور ہي کچھ ہے

ارشاد نبوت ميں وطن اور ہي کچھ ہے 

اس نظم کے تناظر ميں علامہ اقبال کا تصور وطنين اور قوميت نماياں ہے دونوں کا گہرا اور بنيادي تعلق رنگ نسل جغرافيہ اور زبان کي بجائے دين سے ہے اقبال نے وطن اور قوم دونوں کو ملت کے نکتہ نظر سے ديکھا ہے-

برصغير پاک و ہند ميں مسلمانوں کي جداگانہ شناخت کے ليے وطنيت کے اس نئے تصور کے ساتھ ساتھ اردو کي تاريخي حيثيت بھي پيش نظر رہني چاہيے اس کے ليے درج ذيل دو اقتباسات ديکھيے جو قريب قريب نصف صدي کے فرق کے ساتھ ايک ہي حقيقت کي نشاندہي کرتے ہيں- پہلا اقتباس حافظ محمود شيراني کي تحرير کا ہے جب کہ دوسرا پروفيسر مرزا محمد منور کا ہے-

بشکریہ : ڈاکٹر رياض مجيد

پيشکش: شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


 متعلقہ تحريريں :

 "قديم شعراء کے کلام کے لغات، وقت کي اہم ضرورت" (حصّہ دوّم)

"قديم شعراء کے کلام کے لغات، وقت کي اہم ضرورت"

جشن بہار

محاورہ، روزمرہ، ضرب المثل اور تلميح ميں فکري اور معنوي ربط (حصّہ چهارم)

محاورہ، روزمرہ، ضرب المثل اور تلميح ميں فکري اور معنوي ربط (حصّہ سوّم)