• صارفین کی تعداد :
  • 3309
  • 9/19/2011
  • تاريخ :

آيات کي تقسيم كا دوسرا قاعدہ

قرآن حکیم

دوسرا قاعدہ اس بات پر مبني ہے كہ قرآن كو انسان كے لئے ہدايت مانتے ہيں: ”ھدي للنّاس”‌ اور انسان چونكہ گوناگوں مادي، معنوي، فردي، اجتماعي، دنيوي و اخروي پہلو ؤ ں كا حامل ہے لہذا قرآني معارف كو وجود انساني كے مختلف 

پہلو ؤ ں  کے اعتبار سے تقسيم كرتے ہيں اس طرح قرآني معارف كي تقسيم بندي كو محور خود ”انسان”‌ كو قرار ديتے ہيں

يہ كام  يقيناً ممكن ہے اور اس ميں كوئي بنيادي نوعيت كا قابل اعتراض پہلو بھي نظر نہيں آتا ليكن فني كمزورياں پہلے قاعدے سے زيادہ اس ميں ہيں كيونكہ جب ہم قرآن كے دقيق مفاہيم سے آشنا ہوتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ خود انسان كو محور قرار دينا قرآن كي نظر ميں بہت زيادہ قابل قبول نہيں ہے، اور ايہ ايك قسم كا ”ہيومنسٹ”‌ طرز فكر ہے جس ميں انسان كو اصل قرار ديتے ہيں اور ہر چيزكي قدر و قيمت انسان سے ربط و تعلق كي بنياد پر قائم كرتے ہيں! قرآن اس انداز فكر كا موافق نہيں ہے، ہم واضح طور پر ديكھتے ہيں كہ تمام قرآني مفاہيم كے تمام ابواب عقائد سے لے كر اخلاق، موعظہ، داستان، تشريع، فردي و اجتماعي احكام وغيرہ تك سب كے سب ايك اور صرف ايك محور ركھتے ہيں اور وہ خود خداوند تبارك و تعالي كي ذات ہے، چنانچہ قرآن جہاں كوئي قانون اور حكم بيان كرتا ہے كہتا ہے: خدا نے تم پر يہ حكم نازل فرمايا ہے، جہاں كسي اخلاقي پہلو كا ذكر كرتا ہے كہتا ہے يہ وہ خلق عادت ہے جو خدا كو پسند ہے…ملاحظہ فرمائيں:

سورہ مائدہ كي آيت: ”واللّہ يحب المقسطين”‌، (اللہ انصاف پسند لوگوں كو دوست ركھتا ہے) آلِ عمران كي آيت: ”واللّہ يحب الصّابرين”‌، (اللہ صبر كرنے والوں سے محبت كرتا ہے) قصص كي آيت: ”ان اللّہ لايحب المفسدين”‌، (اللہ مفسدوں كو پسند نہيں كرتا)

لہذا اخلاق كا محور بھي خدا كي ذات ہے، بنابرين ہم كہہ سكتے ہيں كہ قرآني آيات ”اللہ محوري”‌ كي اساس پر مبني ہيں دوسرے لفظوں ميں مكتب قرآن مكتب الہي ہے ”ہيومنزم”‌ نہيں ہے پس انسان كو محور كل قرار دينا ايك طرح كا انحراف ہے قرآني معارف كا محور خدا كو قرار دينا چاہيئے اور اس كي پوري طرح حفاظت كرنا چاہيئے

دوسرا نقص يہ ہے كہ انساني وجود كے پہلو مبہم ہيں اور يہي مشخص نہيں ہے كہ انسان كتنے جنبوں كا حامل ہے كہ ہم كہہ سكيں انساني وجود كے اِن اِن پہلوğ كي ايك واضح تقسيم بندي كي بنياد پر قرآني آيات كي تقسيم بندي كرلي جائے دوسري طرف پہلي نظر ميں وجود انسان كے تمام پہلوğ كے درميان كوئي واضح ارتباط بھي نہيں پايا جاتا -

تيسري دشواري يہ ہے كہ انساني وجود كے مختلف پہلو (اگر مشخص ہو بھي جائيں) تو ان كي بنياد پر قرآني معارف كي تقسيم بھي ايك لاحاصل كام ہوگا كيونكہ ہم ديكھتے ہيں بعض اوقات ايك حكم الہي اور ايك خلق و عادت جس كو انسان كے لئے اچھا قرار ديا گيا ہے انسان كے كسي ايك مخصوص جنبہ سے اس كا تعلق نہيں ہے بلكہ وجود انساني كے بہت سے گوشے اس حكم و قانون اور اخلاق سے اس طورپر تعلق ركھتے ہيں كہ يہ نہيں كہا جاسكتا قرآن كا يہ بيان يقيني طور پر انساني وجود كے فلاں پہلو سے مربوط ہے-

بشکريہ رضويہ اسلامک ريسرچ سينٹر


متعلقہ تحريريں:

قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ (حصّہ چهارم)

قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ (حصّہ سوّم)

قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ (حصّہ دوّم)

کيا قرآن کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت ميں منحصر ہے؟ 

قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ