• صارفین کی تعداد :
  • 1877
  • 9/9/2011
  • تاريخ :

محاورہ، روزمرہ، ضرب المثل اور تلميح ميں فکري اور معنوي ربط (حصّہ سوّم)

محاورہ

ضرب المثل عربي زبان کا لفظ ہے، جس کے مترادفات دنيا کي دوسري زبانوں ميں بولے جاتے ہيں- اُردو زبان ميں ضرب المثل، اکھان اور کہاوت ايک دوسرے کے مترادف ہم معني اصطلاح کے طور پر مروج ہيں، جبکہ پشتو ميں اس کے ليے "متل" کي اصطلاح مروج ہے- ضرب المثل لفظوں کا وہ مجموعہ ہے، جو ہمارے بزرگوں کے تجربات، ان کے فکري يا معنوي احساسات، ان کي زندگي ميں گزرنے والے واقعات يا ان کي زندگي ميں رونما ہونے والے اُن سانحات کي کہاني کو دو يا دو سے زائد الفاظ کے ايک ايسے ترکيب ماحول ميں مرتب کرتے ہيں، جس ميں مصدر يا افعال کي تجربات اور مشاہدات کے تخليقي آہنگ سے مرتب ہوکر صديوں کا سفر کرتے ہوئي ہماري تہذيبي، فکري اور لساني زندگي کا ايسا لازمہ قرار پاتي ہے، جس کے اندر ہميں عوامي ذہانت اور اسلاف کي زندگيوں کے وہ دانشمندانہ رويے دکھائي ديتے ہيں کہ اُس سے کہاوت، ضرب المثل يا "متل" اپنا تخليقي اظہار پاتي ہے- اس ضمن ميں شان الحق حقي رقم طراز ہيں کہ:

"ضرب الامثال عوامي سطح پر پيدا ہوتي ہيں- ان ميں عوامي فطانت سمائي ہوتي ہے اور عوامي زندگي کي جھلک نظر آتي ہے- خوبي يہ ہے کہ پھر خواص بھي ان ہي مثلوں اور کہاوتوں کو برتتے ہيں اور اپنا ليتے ہيں- اگرچہ وہ اکثران کے اپنے ماحول يا معاشرے سے تعلق نہيں رکھيتں- نہ صرف امثال بلکہ الفا ظ تلفظ  محاورے وغيرہ کے معاملے ميں بھي عوام کے آگے خواص کي زيادہ نہيں چلنے پاتي-" 

اور افتخار عارف کے مطابق:

"ضرب الامثال بالعموم عوامي ذہانت کي امين ہوتي ہيں اور ان کے پيچھے صديوں کي دانش کارفرما ہوتي ہے يہي وجہ ہے کہ انہيں زبان کي زينت اور زيور تصور کيا جاتا ہے اور تحرير و تقرير ميں رنگا رنگي اور ندرت پيدا کرنے کے ليے ان کا استعمال ناگزير ہوتا ہے-"

محاورے اور ضرب المثل ميں جو مشترک آہنگ پايا جاتا ہے، وہ اُس دانش، حکمت، دانائي يا اس ذہني اور فکري استعداد کا وہ قرينہ ہے، جو زندگي کے تجربے سے پھوٹتا ہے، ليکن مختلف صورتيں اور شکليں اوڑھنے کے بعد يہ ايسي ترکيبي صورتيں اختيار کرتا ہے کہ زبان کے اصطلاحي پيکر ميں اُس کا نيا آہنگ يا نيا نام سامنے آتا ہے- ضرب المثل ہو يا محاورہ اس ميں ہمارے بزرگوں کے تجربات، زندگي کي دانش کے ساخت باہم آميخت ہوکر ان کے مشاہدے اور تجربے کو ايک ايسي ترکيب صورت ميں اجاگر کرتے ہيں، جو کہيں کہاوت کا نام پاتي ہے اور کہيں اُس دانائي اور حکمت کو محاورے کا نام ديا جاتا ہے- اب ان دونوں اصطلاحوں کے مابيں جو ربط اور علاقہ موجود ہے، وہ دانش، زندگي کے تجربے يا مشاہدے سے مستعار وہ روح اور فکر نچوڑ ہے- جو صديوں پہلے اسلاف نے اپنے تجربات کي روشني ميں الفاظ کے پيکر ميں متشکل کيا تھا ليکن اب انہيں جو صورتيں ميسر آئي ہيں، وہ ان کے معنوي خدوخال، اصطلاحي رويوں اور ظاہري ناموں کو متشکل کرتي ہيں- اگر کوئي ترکيب، مصدر، علامتِ مصدر، افعال اور اس کي مختلف صورتوں کے ساتھ وضع ہوتي ہے، تو وہ محاورہ ہے اور اس کے ليے ضروري ہے کہ وہ اپنے حقيقي معني کے بجائے غير حقيقي معني ميں مستعمل ہو، جبکہ ضرب المثل لفظوں کا وہ مجموعہ ہے، جو اسلاف کي زندگي کے دانشمندانہ تجربے، مشاہدے اور رويے اور تجربے سے مستفيد ہوتا ہے اور اس ميں زندگي کي حقيقي رعنائي کا ايک ايسا پہلو ہمارے سامنے آتا ہے، جو نفسياتي، سماجي، فکري، تہذيبي، تاريخي اور انساني تجربات اور اِس پر رونما ہونے والے مذہبي مظاہر اور رويوں سے متشکل ہوتا ہے-

محاورے اور کہاوت ميں جو مشترک رويہ بنيادي طور پر سامنے آتا ہے، وہ يہ ہے کہ دونوں کے پيچھے اسلاف کا کوئي دانشمندانہ رويہ، زندگي کا کوئي تجربہ، مشاہدہ اور پہلو متشکل ہوتا ہے- جو آنے والي نسلوں کے ليے رہبري اور رہنمائي کا مينارہ نور بن سکتا ہے اور جس کے پيچھے انسان يا انسانوں کي ايک جماعت کا تجربہ، گہرے مشاہدے اور ان کي فکري معنويت کے جِلو ميں سامنے آتا ہے- کہاوت لفظوں کي ايسي ترکيب کا نام ہے، جس ميں ايک پورا جملہ موجود ہوتا ہے- محاوہر جملہ نہيں ہوتا وہ لفظوں کا مجموعہ ہوتا ہے، جو عام صورتوں ميں علامتِ مصدر پر ختم ہوتا ہے اور اس مصدر کي پوري گردن ممکن ہوتي ہے- مثلاً غم کھانا، وہ غم کھاتا ہے، دہ غم کھا رہا ہے، وہ غم کھائے گا وغيرہ، جبکہ ضرب الامثال ميں گردان کي اجازت نہيں ہوتي- ضرب المثل اپنے اندر پوري معنويت رکھتي ہے، وہ مرکبِ تام اور مرکبِ مفيد ہوتا ہے، وہ ايک ايسا مکمل جملہ ہوتا ہے، جس کے اندر اس جملے کي تمام معنويت متشکل ہوتي ہے- ڈاکٹر سيفي پريمي نے اس کي وضاحت ان الفاظ ميں کي ہے:

"اصل ميں ضرب المثل ايک جملہ تامہ ہوتا ہے اور اپنا ذاتي مفہوم ادا کرنے کے ليے کسي دوسرے جملے يا عبارت کا محتاج نہيں ہوتا-"

محاورہ جملہ نہيں ہوتا، يہ اپني ذات ميں اپنے معني کي کشيد ميں تو معاونت کرتا ہے، ليکن کسي بھي رويے اور حوالے سے پوري کيفيت کو سامنے نہيں لاتا- محاورہ ہر زبان کا ايک لازمي جزو ہوا کرتا ہے-

محاورہ زبان کے مختلف استعمالات ميں اپني افعالي صورتوں کو بدلتا رہتا ہے يعني جملے ميں استعمال کرنے سے محاورے کي علامتِ مصدر، جملے کي مناسبت کے ساتھ افعال اور اس کي صورتيں تبديل کرتي ہيں، جبکہ کہاوت کو جب آپ اس کے رويوں ميں استعمال کرتے ہيں، تو وہ کسي طور بھي لفظي تغير و تبدل قبول نہيں کرتي- اگر آپ اس ميں کسي نوعيت کي توڑ پھوڑ يا شکست و ريخت کے عمل کو روا رکھتے ہيں، تو اُس کي ساري معنويت توڑ پھوڑ کا شکار ہو جاتي ہے اور يہ ٹوٹ پھوٹ اِس کے داخلي اور خارجي نظام کو اس کي معنويت سے بہت دور لے جاتي ہے- لہٰذا زبان اور زبان کے استعمالات ميں کہاوت کو من و عن استعمال کيا جاتا ہے- اس ميں کسي طرح کے لفظي تغير و تبدل کو دخل حاصل نہيں ہوتا- اس ليے تو ڈاکٹر گوپي چند نارنگ نے يہ لکھا ہے کہ:

"محاورہ کلام کا جز بن کر اس ميں جزب ہو جاتا ہے- کہاوت ميں يہ قابليت نہيں ہے-"

تحریر: عبداللہ جان عابد


 متعلقہ تحريريں :

اقبال کي اُردو غزلوں ميں رديف کا استعمال کي اہميت (حصّہ چهارم)

اقبال کي اُردو غزلوں ميں رديف کا استعمال کي اہميت (حصّہ سوّم)

اقبال کي اُردو غزلوں ميں رديف کا استعمال کي اہميت (حصّہ دوّم)

اقبال کي اُردو غزلوں ميں رديف کا استعمال کي اہميت

 بانگِ درا (حصہ اول ... 1905 تک)