• صارفین کی تعداد :
  • 2656
  • 9/8/2011
  • تاريخ :

جسماني سزا (حصّہ دوّم)

جسمانی سزا

بہر حال بدنى سزائيں تربيت کے ليے نہايت ہى خطرناک ہيں اور حتى الامکان ان سے بچنا چاہيے ليکن اگرکوئي دوسرا طريقہ مؤثر نہ ہو اور مارکے علاوہ کوئي چارہ کارنہ ہو تو ايک ضرورت کى حد تک اس سے کام لياجا سکتا ہے اسلام نے بھى اس کے ليے اجازت دى ہے مثلاً رسول اسلام صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:

اپنے بچوں کو چھ سال کى عمر ميں نماز کے ليے کہو اور اگر نصيحت اور ڈانٹ مؤثر نہ ہوں اور وہ تمہارے حکم کى خلاف ورزى کريں تو سات سال کى عمرميں تم انہيں مارکر نماز کے ليے کہہ سکتے ہو

ايک اور حديث ميں امام محمد باقر يا امام جعفر صادق عليہما السلام نے فرمايا:

جب بچہ نو سال کى عمر کو پہنچے تو اس وضو کرنا سکھاؤ اور اس سے کہو کہ وضو کرے اور نماز پڑھے اور اگر وہ نہ مانے تو مار کر نماز پڑھاؤ

حضرت على عليہ السلام نے فرمايا:

اگر تمہارا خادم خدا کى نافرمانى کرے تو اسے مارو اور اگر تمہارى نافرمانى کرے تو اسے معاف کردو

امير المومنين عليہ السلام ہى فرماتے ہيں:

جس طرح سے اپنے بيٹے کو سرزنشکرواسى طريقے سے تيمم کو سرزنشکرو اور جسمقام پر اپنے بيٹےکو سرزنشکے ليے مارو اس مقام پر تيمم کے ليے بھى اس سے کام لو

ايک شخص نبى اکر م (ص) کى خدمت ميں آيا اور عرض کى ايک تيمم بچہ ميرى سرپرستى ميں ہے کيا ميں اسے سرزنش کے ليے مار سکتا ہوں فرمايا:

جس مقام پر تم اپنے بيٹے کو تربيت کے ليے مارسکتے ہو اس مقام پر تيمم کى تربيت کے ليے بھى مار سے کام لے سکتے ہو

بہر حال جب تک ضرورت نہ پڑجائے اس حساس اور خطرناک وسيلے سے کام نہيں لينا چاہيے اور جب ضرورى ہو اس وقت بھى احتياط کا دامن ہاتھ سے نہيں چھوڑنا چاہيے اور سزا جچى تلى اور سوچى سمجھى ہوئي چاہيے

ايک شخص نے رسول اکرم صلى الله عليہ و آلہ و سلم کى خدمت ميں عرض کى ميرے گھر والے ميرى نافرمانى کرتے ہيں ميں کس طريقے سے انہيں تنبيہ کروں فرمايا: انہيں معاف کردو اس نے دوسرى اور تيسرى مرتبہ يہى سوال کيا تو حضور (ص) نے يہى جواب ديا اور اس کے بعد فرمايا:

اگر تم انہيں سرزنش کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہيں دھيان رکھنا چاہيے کہ سزا ان کے جرم سے زيادہ نہ ہو اور چہرے پر مارنے سے اجتناب کرنا

حضرت صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:

ضرورت کے موقع پر بچے اور خادم کو تنبيہ کے ليے پانچ يا چھ ضربوں سے زيادہ نہ مارو اور زيادہ زور سے بھى ( نہ مارو)

تنبيہ کے موقع پر کوشش کريں کہ دوسروں کى موجودگى ميں نہ ہو کيونکہ روحانى طور پر بچے پر اس کے  برے اثرات مرتب ہوئے ہيں اور اسے وہ عمر بھى نہيں بھلاتا مار حد سے بڑھ جائے تو اسلام ميں اس کے ليے ديت اور جرمانہ مقررکيا گيا ہے لہذا اس حد تک نہيں مارنا چاہيے

اسلام کے قوانين کے مطابق اگر مارنے کے نتيجے ميںکسى کا چہرہ سياہ پڑجائے تو مارنے والے کو اس چھ طلائي دينار دينا ہوں گے اور اگر چہرہ سبز پڑجائے تو تين دينار اور گر سرخ ہوجائے تو ڈيڑھ دينارے ماں باپ کو حق نہيں پہنچتا کہ وہ پاگلوں کى طرح بيچارے بچے کى جان کے درپئے ہو جائيں اور اس مکوں اور لاتوں سے ماريں يا زنجيز اور ڈنڈے سے اس کا بدن سياہ کرديں بہر حال ضرورت کے موقع پر اسلام نہ فقط بدنى سزا کو مفيد سمجھتا ہے بلکہ اس کا حکم ديتا ہے کيونکہ بے حد و حساب اور مطلق آزادى کا بھى مفيد نتيجہ برآمد نہيں ہوتا يہى بے حساب اور غلط آزادى ہے کہ جسنے مغرب کے بچوں اور نوجوانوں کو بگاڑديا ہے

بشکريہ :  مکارم شيرازي ڈاٹ او آر جي


متعلقہ تحريريں:

کتاب کا مطالعہ (حصّہ پنجم)

کتاب کا مطالعہ (حصّہ چهارم)

کتاب کا مطالعہ (حصّہ سوّم)

کتاب کا مطالعہ (حصّہ دوّم)

کتاب کا مطالعہ