• صارفین کی تعداد :
  • 1444
  • 9/6/2011
  • تاريخ :

محاورہ، روزمرہ، ضرب المثل اور تلميح ميں فکري اور معنوي ربط (حصّہ دوّم)

محاورہ، روزمرہ، ضرب المثل اور تلمیح

اسي طرح شان الحق حقي نے روزمرے کي وضاحت کي ضمن ميں لکھا ہے کہ :

"روزمرہ " وہ مخصوص کلمات ہيں، جو عموماً بولنے والوں کي زبان پر چڑھے ہوتے ہيں اور بے ساختہ زبان سے ادا ہوتے ہيں- اگر چہ اجنبي کو اجنبي معلوم ہوں گے- مثلاً: آو ديکھانہ تاو" (لبلبي دبادي) وہ ت:و يہ کہے کہ (بندوق خالي تھي ورنہ بيٹھے بٹائے کسي کا خون ہو جاتا) خدا بري گھڑي سے بچائے، سچ پوچھو تو (مجھے ان کي يہ حرکتيں) ايک آنکھ سے نہيں بھاتيں- چلو خير، وہ جانے ان کا کام جانے" اس عبارت ميں، جو ٹکڑے قوسيں سے باہر ہيں- روزمرہ کي ذيل ميں آتے ہيں-"

محاورے اور روزمرے ميں الفاظ کي جو ترتيب ابتدا سے مرتب ہوچکي ہے، اُس ميں کسي لفظ کو اس کي جگہ سے دوسرے مقام پر منتقل نہيں کيا جاسکتا- لفظوں کے آگے پيچھے کرنے سے نہ محاورہ، محاورہ رہ سکتا ہے اور نہ روزمرہ، روزمرہ، کيونکہ زبان کے ارتقائي عمل کے مابين جب کسي محاورے يا روزمرے کي تشکيل اور ترکيب ہوتي ہے- تو جو لفظ جہاں موجود ہوتا ہے، صديوں تک اُس کا محاورے يا روزمرے ميں وہي پيٹرن، صورت اور ہيئت موجود رہتي ہے- (محاورے اور روزمرے) کے لفظوں ميں کسي نوعيت کي کوئي تبديلي ممکن نہيں ہوتي- لفظوں کے اندر تغيرات کي عدم موجودگي اُس کي معنوي کيفيت کو ہم آہنگ رکھتي ہے اور اِسي ليے صديوں کے سفر اور زمانے کے بدلتے ہوئے تناظر کے باوجود، اس ميں معنوي سطح پر بھي کسي نوعيت کي تبديلي کا پيدا ہونا ممکن نہيں ہوتا-

ماہرين نے روزمرے اور محاورے کے مابين فرق اور اختلاف کي بنيادي وجہ ان کے معنوں ميں حقيقي غير حقيقي فرق کو بنيادي سبب قرار ديا ہے- حالانکہ دونوں کے مابين ايک بنيادي اختلاف مصدر کے علامتي حرف "نا" ( اُردو ميں) اور اسي طرح دنيا کي دوسري زبان ميں جو علامتِ مصدر ہے، وہ اس اختلافي معنويت کو آشکار کرني ہے- علامتِ مصدر وہ بنيادي اختلاف ہے جو محاورے اور روزمرے کے مابين وقوع پذير ہوتا ہے، کيونکہ کوئي محاورہ ايسا نہيں ہوتا، جو علامتِ مصدر نہ رکھتا ہو اور يہ ايک ايسي علامت ہے، جو محاورے کو روزمرے سے عليحدہ اور منفرد حيثيت عطا کرتي ہے- دونوں کے مابين لفظي تغيرات ميں امتيازي وصف محاورے ميں موجود حرفِ مصدر يا علامتِ مصدر کو حاصل ہوتا ہے، جبکہ محاورے اور روزمرے کے درميان دوسري تفاوت جو معنوي سطح پر رونما ہوتي ہے، وہ يہ ہے کہ محاورے ميں الفاظ يا الفاظ کا مجموعہ اپنے غير حقيقي يا اصلاحي معنويت ميں مستعمل ہوتا ہے، جبکہ روزمرے ميں اس کے الفاظ کي جو ترکيب معنويت مرتب اور متعين ہوتي ہے، وہ لغت کے عين مطابق ہوتي ہے- روزمرے ميں بے معني يا مہمل الفاظ بھي وارد ہوتے ہيں،جبکہ محاورے ميں مہمل يا بے معني الفاظ يا الفاظ کا مجموعہ موجود نہيں ہوتا- ہر لفظ ايک معنوي پيکر ہوتا ہے، وہ کسي خاص معنوي مفہوم کو اجاگر کرتا ہے اور اُس محاورے کے تناظر ميں ڈھل کر کسي مخصوص معنويت کا حامل بن جاتا ہے جو محاورے کے معنوي قرينے کو ايک تناظر عطا کرتي ہے-

روزمرے اور محاورے کي طرح لسانياتي قواعد کي کچھ ديگر اصطلاحيں بھي محاورے کے ساتھ معنوي اشتراک رکھتي ہيں اور کچھ معنوي اختلاف کي حامل بھي ٹھہرتي ہيں- مثال کے طور پر ضرب المثل اور کہاوت دو ايسي اصطلاحيں ہيں، جن کو اکثر و بيشتر لسانيات کي کتابوں ميں محاورے کا مترادف قرار ديا جاتا ہے- حالانکہ جيسے محاورہ، روزمرے کے مقابلے ميں ايک عليحدہ معنويت، اپنے ظاہري خدوخال ميں مختلف پيکر اور معنوي سطح پر اپني داخلي مظاہر ميں معني کي ايک بالکل منفرد اور نئي دنيا کا حامل ہوتا ہے، بالکل اسي طرح ضرب المثل اور محاورے کے مابين بھي کہٰن لفظ کا معنوي اشتراک موجود بھي ہو سکتا ہے، ليکن بنيادي طور پر اِن اصطلاحوں کے مابين ايک ايسا باريک معنوي اختلاف موجود ہوتا ہے- جو اِن تراکيب اور اصطلاحوں کو اپنے اپنے معني کے خدوخال متين کرنے ميں معاون ہوتا ہے اور ايک دوسرے سے ان کو مختلف معنوي ماحول ميں دريافت کرتا ہے-

تحریر: عبداللہ جان عابد


 متعلقہ تحريريں :

اقبال کي اُردو غزلوں ميں رديف کا استعمال کي اہميت (حصّہ سوّم)

اقبال کي اُردو غزلوں ميں رديف کا استعمال کي اہميت (حصّہ دوّم)

اقبال کي اُردو غزلوں ميں رديف کا استعمال کي اہميت

 بانگِ درا (حصہ اول ... 1905 تک)

مياں محمد بخش، صوفي شاعر