• صارفین کی تعداد :
  • 3104
  • 8/26/2011
  • تاريخ :

ضحّاک کي کہاني  دُوسرا نظارہ

ضحّاک

(فرہاد _______ پرويز)

فرہاد -( پرويز کو ديکھ کراپنے آپ ) وہي ہے! وہي ہے ! کس شان سے آ رہا ہے! جيسے شير! اللہ تعاليٰ ہر بلا سے محفوظ رکھّے! (پرويز سے ) بيٹا ديکھنا باري نہ ٹل جائے!

پرويز- نہيں ابّاجان! باري والے کبھي کے چلے گئے!

فرہاد - کيا وہ آپي جاگ اُٹھا؟

پرويز- نہيں!ابھي سورہا ہے!

فرہاد - بيٹا! آرام سے تو ہو نا؟ کوئي تکليف تو نہيں ہے؟؟

پرويز- ابّاجان! ايک کسان کے، ايک چرواہے کے لڑکے کو، جو شاہي محلوں ميں رہے، کيا تکليف ہوسکتي ہے؟؟ ايک ايسا شخص جو پہاڑوں کے درّوں ، اور ديہات کے جھونپڑوں ميں، فقرو فاقہ کي حالت ميں پل کربڑا ہؤا ہو! اور اُسے ايسي نعمت مل جائے تو وہ کيوں خوش نہ ہوگا----؟

فرہاد - (غمگين ہوکر اپنے آپ) ايک کسان کا! ايک چرواہے کا لڑکا!! ------ايسا شخص جو فقرو فاقہ کي حالت ميں پل کر بڑاہؤا ہو------ ؟ آہ! تقدير !! تقدير!!!

پرويز- ابّا جان! حضور بادشاہ سلامت نے جيسے جيسے احسان مجھ پر کئے ہيں! آپ ديکھتے ہيں!؟

فرہاد -( اپنے آپ ) غريب لڑکا!!

پرويز- کيوں ابّا جان ؟کيا ميں اِن مہربانيوں کے لائق ہوں ؟ديکھئے نا! ميں ايک کسان کا لڑکاہوں! مگر اُس نے مجھے اپنےخاص عصابرداروں ميں شامل کياہے!

فرہاد - (اپنے آپ) آہ! اِس بيچارہ کو کيا معلوم؟

پرويز- کيا ميں سچ نہيں کہتا ابّاجان ؟؟

فرہاد - (زہرخند کرکے) سچ ہے!بيٹا!سچ ہے!!(دوسري طرف منہ کرکے اپنے آنسو پونچھتاہے اور پھر اپنے آپ) آہ! اِس کي زبان سے جولفظ نکلتاہے! ميرے دل پر تيرو نشتر کا کام کرتا ہے! ------غريب لڑکا! اتنے آرام کو بھي، اپني حيثيت سے بڑھ کر جانتاہے!!اِس غريب کو کيا خبر کہ------

پرويز- ابّا جان! ميں نے ايک بات بہت سوچي! مگرآپ سے کبھي نہ پوچھ سکا!

فرہاد - وہ کيا بات ہے بيٹا------؟

پرويز- جب ہر روز مجھے ديکھنے آتے تھے نا------ ؟

فرہاد - (گھبرا کراپنے آپ ) الٰہي تير ي پناہ!!

پرويز- جب ميں چھوٹاسا، بہت چھوٹا ساتھا! آپ ہر روز آتے تھے! ميں اُس وقت آپ سے ابّا جان سے زيادہ محبت کرتا تھا!

فرہاد - ( بےچين ہو کر ) آہ بيٹا! تم يہ کيسي باتيں ------کيا پوچھناچاہتے ہو؟

پرويز- ميں پوچھتاہوں ابّاجان! آپ نےاُس وقت اور اُس کے بعد مجھے کيوں نہ بتلايا کہ آپ يہاں رہتے ہيں! مجھے اگر معلوم ہوتا تو اُسي وقت آپ کے پاس چلا آتا!

فرہاد - (حواس باختہ ہو کر ) چونکہ ------کچھ------ مناسب ------نن------ نہيں تھا------ بس!------

پرويز- ہائيں آپ کو کيا ہؤا ؟------ الٰہي خير! آپ گھبرا کيوں گئے؟

فرہاد - کچھ ------بيٹا!------کچھ نہيں!------ ميں اچّھا ہوں ------مگر ديکھنا! ميرے وہاں آنےجانے اور لوگوں سے ملنے جُلنے کاحال، کسي سے کہنانہيں!------ يہ بات چُھپانےکي ہے! ------سمجھے؟؟

پرويز- بہت اچّھا! ابّاجان! مگر يہ کيوں ؟

فرہاد - کچھ نہيں! کوئي خاص بات نہيں!------ يونہي ------ميں چاہتاہوں! کسي کو خبر نہ ہو! سُنا!؟

پرويز- بہت اچّھا!

فرہاد - قسم کھاؤ! بس مجھے اطمينان ہوجائيگا!------  کسي سے کہوگے تو نہيں؟ ہے نا!!

پرويز- بہت بہتر! نہيں کہونگا! مگر جتنا آپ اصرار کرتے ہيں! ميري پريشاني بڑھتي جاتي ہے! آخر اِس کے چُھپانے کا سبب------ ؟؟

فرہاد - کچھ نہيں! مگر ميں نہيں چاہتا! ميں نہيں چاہتا ،لاؤ! اپنا ہاتھ! (اپنے آپ) يہ اِسے کہاں سے سوجھي؟ مجھے ڈرہے ، کہيں ميرا بھيد نہ کُھل جائے!

پرويز- (اپنے آپ ) کس قدر بےچين ہوگئے! اِس ميں کچھ بھيد ہے شايد------!

فرہاد - نہيں کہو گے نا------؟

پرويز- اطمينان رکھيے! ابّا جان! ميں کسي سے------ ذکر نہيں کرونگا ------مگر يہ بھيد؟!

فرہاد - قسم کھاؤ! قسم کھاؤ!!

پرويز- آفتاب کے اُس نور کي قسم! جو روزانہ علي الصبح ، ساري دُنيا کو اپني روشني سے منوّر کرديتاہے!ہميں اندھيرے کے پنجےسے چُھڑاتاہے! برف کے ٹيلوں اور يخ کے پہاڑوں کو پگھلاتا اور درختوں ميں ميوے پيدا کرتا ہے------! جمشيد کي جان کي قسم! ------نہيں کہوں گا!!

فرہاد - ( يکايک خوش ہو کراپنے آپ ) الہٰي!تيرا شُکر! ابھي جمشيد کے مذہب پر قائم ہے!( کسي قدر چوکنّاہو کر ) مگرايسي قسم کھاتے ہوئے کسي نے سُن نہ لياہو!------ کہيں! اِس کے جمشيد کا مذہب نہ چھوڑنے کاحال ------ضحاک کے کانوں تک نہ پہنچ جائے! -----(اوپري دل سے ) بيٹا!خدا تميں سلامت رکھے! اب کبھي ايسي قسم نہ کھانا!------ (پرويز نادم ہوکر اپني اُنگلي دانتوں ميں داب ليتاہے ) ديکھنا ! آئندہ اِن ”‌مقدّس سانپوں ” کي قسم کھاني چاہيے!------

پرويز-  مَيں بُھولا! ابّاجان !!

فرہاد - ( اپنے آپ ) کچھ شک نہيں کہ ابھي دل ميں ہمارا ہي عقيدہ ہے! الہٰي! تيرا شُکر ہے!(جانا چاہيئے اب تو) بيٹا! تم يہاں سے کہيں نہ جانا!جب وہ جاگےگا تو شايد تميں بُلائيگا!!

پرويز-  کہيں نہيں جانے کا ابّاجان! ميں کہيں نہيں جانے کا!

تحرير: اختر شيراني


متعلقہ تحريريں :

دادا جان ، تسبيح اور چمگادڑ (دوسرا حصّہ)

دادا جان ، تسبيح اور چمگادڑ

ہائے ر ے تکيہ کلام (حصّہ دوّم)

ہائے ر ے تکيہ کلام

ايک چيونٹے کي کہاني