• صارفین کی تعداد :
  • 3615
  • 8/16/2011
  • تاريخ :

کتاب کا مطالعہ

کتاب کا مطالعہ

کتا ب کا مطالعہ تعليم و تربيت کا ايک بہترين طريقہ ہے اچھى کتاب قارى کى روح پر بہت گہر اثر ڈالتى ہے اس کى روح اور نفس کو کمال عطا کرتى ہے اور اس کى انسانى حيثيت کربلند کرديتى ہے اس کے علم ميں اضافہ کرتى ہے اس کى معلومات بڑھاتى ہے اخلاقى اور اجتماعى خرابياں دور کرتى ہے خصوصاً دور حاضر کى مشينى زندگى ميں کہ جب انسان کے پاس فرصت کم ہوگئي ہے اور علمى و دينى محافل ميں شرکت مشکل ہوگئي ہے کتاب کا مطالعہ تعليم و تريت کے ليے اور بھى اہميت اختيار کرگيا ہے ممکن ہے کتاب کے مطالعے سے انسانى روح پر جو اثرات مترتب ہوں وہ ديگر حوالوں سے مترتب ہونے والے اثرات سے عميق ترا ور زيادہ گہرے ہوں کبھى انسان کا مطالعہ اس کى شخصيت کو تبديل کرکے دکھ ديتا ہے علاوہ ازيں مطالعہ کتاب بہترين مشغوليت بھى ہے اور صحيح تفريح بھى جو لوگ اپنى فراغت کے اوقات کتاب کے مطالعہ ميں گزارتے ہيں وہ علمى اور اخلاقى استفادہ کے علاوہ اعصابى کمزورى اور روحانى پريشانى سے بھى محفوظ رہتے ہيں اور ان کى زندگى زيادہ آرام وہ ہوتى ہے کتاب ہر نظارے سے زيادہ خوبصورت اور ہر باغ اور ہر چمن سےزيادہ فرحت بخشہے ليکن جو اہل ہو اس کے ليے کتاب دلوں کى پاکيزگى اور  نورانيت عطا کرتى ہے اور غم بھلاديتى ہے اگر چہ وقتى طور پر ہى سہي حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں:

جو شخص اپنے آپ کو کتابوں کے ساتھ مصروف رکھتا ہے اس کا آرام خاطر (ضائع نہيں ہوتا )

اميرالمومنين عليہ السلام ہى فرماتے ہيں:

تازہ بہ تازہ علمى مطالب حاصل کرکے اپنے دلوں کى کسالت اور خستگى کو دور کروکيوں کہ دل بھى بدن کى( طرح تھک جاتے ہيں )

ہر ملت کى ترقى اور تمدّن کا معيار ان کى کتابوں کى کيفيت ، تعداد اشاعت اور مطالعہ کرنے والوں کى تعداد کو قرار ديا جا سکتا ہے پڑھا لکھا ہونا ترقى کى علامت نہيں بلکہ مطالعہ اور تحقيق ملتوں کى ترقى کى علامت ہے ہمارے پاس پڑھے لکھے بہت ہيں ليکن يہ بات باعث افسوس ہے کہ محقق اور کتاب دوست زيادہ نہيں زيادہ تر لڑکے لڑکياں جب فارغ التحصيل ہوجاتے ہيں تو کتاب کو ايک طرف رکھ ديتے ہيں وہ کاروبار اور زندگى کے ديگر امور ميں مشغول ہوجاتے ہيں لہذا ن کى معلومات کا سلسلہ وہيں پر رک جاتا ہے گويا حصول تعليم کا مقد بسحصول معاشر ہى تھا جب کہ حصول تعليم کو انسان کے کمال اور علمى پيشرفت کے ليے مقدم ہونا چاہيے انسان ابتدائي تعليم کے حصول سے مطالعہ اورتحقيق کى صلاحيّت پيدا کرتا ہے اس کے بعد اس کو چاہيے کہ وہ مطالعہ کرے تحقيق کرے اور کتاب پڑھے تا کہ اپنے آپ کى تکميل کرسکے اور پھر ايک مرحلے پر انسانى علوم کى ترقى ميں مددکرسکے اور يہ کام توانائي اور وسائل کے مطابق آخر عمر تک جارى رکھے دين مقدس اسلام نے بھى اپنے پيروکاروں کو حکم ديا ہے کہ بچپن سے لے کر موت کى دہليز تک حصول علم کو ترک نہ کريں رسول اسلام صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: ( حصول علم ہر مسلمان کا فريضہ ہے اور الله طالب علموں کو پسند کرتا ہے )

حضرت صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:

ميرے اصحاب کو اگر تازيانے سے بھى حصول علم کے ليے آمادہ کيا جائے تومجھے يہ پسند ہے

رسول اکرم صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: دو افراد کے علاوہ زندگى ميں کسى کے ليے بھلائي نہيں پہلا وہ عالم کہ جسکى ابتاع کى جانے اور دوسرا کہ جو حصول علم ميں مشغلو ہو

امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:

لوگ تين طرح کے ہيں:

1عالم ،

2طالب علم اور

3باقى کو ڑاکر کٹ کا ڈھير

امام صادق عليہ السلام ہى فرماتے ہيں:

حضرت لقمان نے اپنے بيٹے سے فرمايا: بيٹا اپنے شب و روز ميں کچھ وقت مطالعہ اور حصول علم کے ليے

مختص کرو کيونکہ اگر تم نے مطالعہ ترک کرديا تو تمہارا علم ضائع ہوجائے گا

امام جعفر صادق عليہ السلام ہى نے ارشاد فرمايا:

حصول علم ہر حال ميں واجب ہے

پيغمبر اکرم صلى الله عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا:

طلب العم فريضة على کل مسلم و مسلمة

علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے

امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:

اگر لوگوں کو علم کا فائدے معلوم ہوتے تو اس کے حصول کے ليے کوشش کرتے اگر چہ اس کام ميں ان کى جان خطرے ميں پڑجاتى يا انہيں حصول علم کيلئے سمندر پار کا سفر کرنا پڑتا

نبى کريم صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمايا:

اگر ميرا کوئي ايک دن ايسا گزرجائے کہ جسدن ميرے علم ميں کچھ بھى اضافہ نہ ہو تو ہ دن نا مبارک ہے ماں باپ کى ابتدائي ذمہ دارى يہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھنے لکھنے کے ليے اسکول بھيجيں اسلام نے اس سلسلے ميں بھى بڑى تاکيد کى ہے

حضرت امام صادق عليہ السلام نے فرمايا:

 بچہ سات سال کھيلتا ہے سات سال پڑھتا ہے اور سات سال حلال و حرام کے متعلق جانتا ہے

پيغمبر اسلام صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:

بيٹے کے باپ پر تين حق ہيں

2اسے پڑھنا لکھنا سکھائے اور

 3جب بڑا ہوجائے تو اس کى شادى کرے

نبى اکرم صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:

جب بچے کو مدرسے لے جاتے ہيں اور استاد اسے بسم الله پڑھتا ہے تو خدا اس کے والدين کو جنہم کى آگ سے بچاليتا ہے

پيغمبر اکرم صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:

افسوس ہے دور آخر کے بچوں پر کہ جوان کے آباء کے ہاتھو ں ان چہ گزرے گى اگر چہ وہ مسلمان ہوں گے  ليکن اپنى اولاد کو دينى فرائض سے آگاہ نہيں کريں گے

بشکريہ :  مکارم شيرازي ڈاٹ او آر جي


متعلقہ تحريريں:

 بچوں کو منظم کيسے کيا جائے؟ (حصّہ دوّم)

بچوں کو منظم کيسے کيا جائے؟

انگوٹھا چوسنا

اسلام ميں عورت کا حق وراثت

تعليم و تربيت کے بارے ميں اسلامي علما کي آرا و نظريات