• صارفین کی تعداد :
  • 3597
  • 8/9/2011
  • تاريخ :

عورت کا مقام و مرتبہ (دوسرا حصّہ)

مسلمان خاتون

عورت کا شر ہونا

نہج البلاغہ کي بعض عبارتوں کو پڑھ کر يہ احساس ہوتا ہے کہ حضرت علي نے بھي عورت کو شرقرار ديا ہے.مثلاً حضرت علي فرماتے ہيں:

’’المر شرّ کلّھا و شرّ ما فيھا انّہ لا بدّ منھا‘‘ عورت کاپورا وجود شر ہے اور سب سے بڑا شر يہ ہے کہ اس کے بغير کوئي چارہ بھي نہيں ہے

نہج البلاغہ ميں اس طرح کے بہت سے موارد موجود ہيں کہ جن ميں اگر ابتدائي اور سطحي نظر سے ديکھا جائے تو مخاطب اس نتيجہ تک پہنچتا ہے کہ اس کتاب ميں بھي دوسري پراني کتابوں کي طرح عورت کو ايک شر، آلودہ اور پليد وجودسمجھا گيا ہے يہ بات قابل ذ کر ہے کہ قديم زمانے ميں يہ نظريہ پہلے سے موجود تھا اور بہت پہلے سے انسانوں ميں يہ فکر (عورت کا شر يا پليد اور منحوس ہونا) رائج تھي بعض لوگ قائل تھے کہ عورت بائيں پسلي يا شيطان کي پسليوں سے پيدا ہوئي ہے اور يہ شيطان کي ايک آلہ کار ہے جو مردوں کو اغوا کرنے کيلئے استعمال کي جاتي ہے جيسا کہ عہد عتيق ميں صراحت کے ساتھ يہ نظريہ بيان کيا گيا ہے اسي وجہ سے مختلف قوموں، ملتوں، امتوں اور تہذيبوںميں عورت کو ’’ام المفاسد‘‘ (فساد کي جڑ) کے نام سے ياد کيا جاتا تھ وہ قائل تھے کہ عورت فساد پيدا کرنے والي مخلوق ہے لہذااسے کنٹرول کيا جانا چاہيے ورنہ يہ پورے معاشرے کو فساد اور گمراہي ميں مبتلا کر سکتي ہے

ابن ميثم بحراني اسي حکمت (238) کے ذيل ميں لکھتے ہيں:

عورت ،مرد کيلئے مکمل طور پر شر ہے، سے مراديہ ہے کہ چونکہ عورت کا نفقہ مرد پر واجب ہوتا ہے جو کہ ظاہر ہے يا پھر اس سے لذت حاصل کرنا مراد ہے کيونکہ يہ بھي خود خدا سے اور اس کي اطاعت سے روکنے اور دور کرنے کا سبب بنتي ہے ہاں مرد کيلئے اس کے علاوہ کوئي چارہ کاربھي نہيںہے. اس کا مطلب يہ ہے کہ چونکہ انسان کي طبيعت اور اس دنياوي وجود کا تقاضا يہي ہے کہ انسان کو ہميشہ اس کي ضرورت رہے اور اپني ضروريات کو اس سے پورا کرے اور ان ہي ضرورتوں کي وجہ سے مرد عورت کو برداشت کرتا ہے. البتہ عورت کے باطن ميں شر کا وجودايک ايسي علت ہے جو معلول سے بھي قوي تر ہے

وہ اسي طرح مولا علي کي اس فرمائش کے بارے ميں لکھتے ہيں:

’’ المر عقرب حلو الّلبس‘‘؛ عورت بچھو کي طرح ہے کہ جس کا کاٹناميٹھا ہوتا ہے‘‘

بحراني کہتے ہيں:

’’ بچھو کا کام کاٹنا ہے اور چونکہ عورت بھي آزار و اذيت کرتي ہے لہذا اس کيلئے عقرب، استعارہ کے طور پر استعمال کيا گيا ہے صرف يہ کہ اس کے کاٹنے ميں لذت اور مٹھاس محسوس ہوتي ہے اور بالکل اس زخم کي طر ح ہے کہ جس کو کھэنے يا کھجلنے کے بعد تکليف ہوتي ہے ليکن کھجلتے وقت اس سے خاص مزہ اور لطف آتا ہے

تاريخ بشريت ميں عورت کے شر ہونے کا نظريہ اور عقيدہ بہت پرانا ہے سيد کمال الدين مرتضويان فارساني جو کہ خود بھي اس نظريہ کے معتقد ہيں ،نے اپنے اس نظريہ کو ثابت کرنے کيلئے ايک کتاب بنام ’’ام المفاسد‘‘ لکھي ہے جس ميں ضرب الامثال، اشعار، حکايات، دانشوروں کے کلام اور دوسرے مسائل وغيرہ درج کيے گئے ہيں اور يہ تمام مطالب عورت کے شر ہونے پر دلالت کرتے ہيں مثلاً مولوي کا ايک شعر ذ کر کيا ہے:

ہر بلا کاندر جہان بيني عيان باشد از شومي زن در ہر مکان

يعني مولوي کہتے ہيں کہ اس دنيا ميں جہاں بھي کوئي بلا اور مصيبت نظر آتي ہے تو وہ عورت کي نحوست کي وجہ سے ہے

اور اسے مختلف دانشوروں سے بھي نقل کيا ہے. مثلاًسقراط کہتے ہيں: ايک عورت کو ديکھا، بيما ر ہے، کہا: يہ شر ہے کہ جس نے شر کو روک کر رکھا ہے‘‘ يا ’’عورتيں ايک عورت کي تشيع جنازہ کر رہي تھيں تو کہا: شر دوسرے شر کے مرنے پر غمگين ہے‘‘ وغيرہ اس کتاب کے نام سے ہي لگتا ہے کہ فارساني نے عورت کي شخصيت کو بگاڑنے اور اس کي منزلت کو گرانے کے لئے يہ کتاب لکھي ہے جس ميں آسماني کتابوں کي آيات (و عبارات)، انبيائ، آئمہ، حکمائ، شعرائ،اور بادشاہوں وغيرہ سے عورت کي شخصيت اور اس کے شر ہونے کے بارے ميں کلام نقل کيا گيا ہے ظاہر ہے کہ اس کتاب کا مقصد عورتوں کو محدود کرنا اور چار ديواري ميں بند کرنا ہے. ليکن اس سے يہ نتيجہ نکلتا ہے کہ عورت کو کنٹرول کر کے اسے سياسي، اجتماعي، تربيتي، علمي ميدانوں ميں ترقي سے محروم کيا جائے. کيونکہ اگر ايسا نہ کيا گيا تو عورت کے وجود ميں پوشيدہ شر اور فساد کھل کر سامنے آئے گا .جس سے معاشرے ميں فساد کا ڈر ہے اس نظريہ کا مطلب عورت کو کمزور اور ضعيف رکھنا اور قدم قدم پر اسے لگام کس کرکنٹرول کرنا ہےاسي نظريہ کے مطابق عورت کيلئے بہترين نمونہ اور آئيڈيل يہ ہے کہ اپنے آپ کو مرد کا خادم اور وسيلہ سمجھے اور اپنے شوہر اور بچوں کي چار ديواري سے تجاوز نہ کرے اگر تاريخي حوادث پر سرسري نطر دوڑائي جائے تو يہي پتہ چلتا ہے کہ جب بھي عورت نے اپنے حدود اور دائرہ اختيار سے باہر قدم رکھا ہے تو معاشرہ فساد اور خرابي کا شکار ہوا ہے

افسوس تو يہ ہے کہ يہ فکر ديني ثقافت ميں بھي رسوخ کر گئي ہے. يہاں تک کہ بعض لوگ خواتين کو تعليم و تربيت سے محروم کرنے کي کوشش کرتے ہيں اور صراحت سے يہ کہتے ہيں کہ عورت کيلئے بہتر ہے کہ گھر کي چار ديواري ميں بند رہے بحار الانوار کي پہلي جلد ميں امام صادق سے روايت نقل ہوئي ہے:

’’انّ المر خلقت من الرجل و انّما ھمّتھا في الرّجال فاحبّوا نسائکم و انّ الرّجل خلق من الارض فانّما ھمّتہ في الارض؛(6)

اس روايت کا مفہوم يہ ہے کہ آدم براہ راست مٹي سے بنائے گئے اور ان کي اہليہ (حوا) حضرت آدم سے باقي بچي ہوئي مٹي سے بنائي گئيں اور ان دو ہستيوں کے درميان ايک ظاہرسا مادي فرق پايا جاتا ہے اور وہ يہ کہ مرد کي تمام ہمت، سعي اور کوشش زمين اور اس کو تسخير کرنا، اس کا حصول اور اس پر غلبہ ہے. جب کہ عورت کي ساري کوشش يہ ہوتي ہے کہ مرد کو پالے اور يہ اصل حرکت کي بنياد پر ہوتاہے

بقول شاعر :

ہر کسي کو دور ماند از اصل خويش

باز جويد روزگار وصل خويش

ہاں ان کي (دونوں کي) معنوي اور روحي ہمت وتوان فقط خدا وند متعال کي ذات اور اس تک پہنچنا ہے .يعني سير الي اللہ کيونکہ دونوں ’’نفخت فيہ من روحي‘‘ کے مصداق ہيں، اور فقط دنياوي اور مادي لحاظ سے ان دونوں ميں فرق پايا جاتا ہے.

لہذا علامہ مجلسي فرماتے ہيں:

’’اب اگر عورت کي ساري تلاش مرد کے حصول ميں ہوتي ہے. پس اے مردو (شوہر!) اپني بيويوں سے محبت کرو کيونکہ عورتوں کي زندگي کا دار و مدار تم پر ہے اور ان کا سارا ھمّ وغم مردوں کي ذات ہے جب کہ مرد ايسا نہيں ہے وہ اپني بيوي کے ساتھ رہتے ہوئے اپني اجتماعي منزلت کيلئے متفکر بھي ہے اور عورت سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے سے بھي وابستہ ہے اور وہاں پر اپنا ايک خاص مقام بنانے کي فکر ميںہے‘‘. بعض کتابوں ميں اس روايت ميں ’’احبّوا‘‘ کي جگہ ’’احبسوا‘‘ آيا ہے

اپني عورتوں کو بند رکھو ليکن يہ غالباً راوي کي نسخہ برداري يا فراموش کاري کا نتيجہ ہو سکتا ہے

شہيد مطہري اپني کتاب ’’مسئلہ حجاب‘‘ ميں مختلف جگہوں پر تاکيد کرتے ہيں

اسلام راضي نہيں ہے کہ عورت پردہ کر کے گھر کي چار ديواري ميں محبوس ہو کر رہے اور آيات و روايات بھي اس مطلب کي نفي کرتي ہيں

اب وہ امام جو مولائے کائنات اور امير المومنين ہيں، عورت کے بارے ميں فرماتے ہيں:

’’المر ريحان ليست بقھرمان؛ عورت پھول کے مانند ہے اور خدمت گزار نہيں ہے‘‘. کيسے اس نظريہ کو قبول کر سکتے ہيں اور کہہ سکتے ہيں کہ حضرت اس نظريہ کے قائل ہيں؟

وہ علي جو پيغمبر اسلامکے سب سے بڑے اور ممتاز شاگرد اور سب سے بڑے مربي قرآن ہيں، کيسے ممکن ہے اس نظريہ کے قائل ہوں جبکہ قرآن حضرت مريم کے بارے ميں ارشاد فرماتا ہے:

’’وليس الذ کر کالانثي؛ مرد عورت کے مانند نہيں ہو سکتا‘‘

جبکہ لوگوں کے درميان مرد اور عورت کي جنسيت کو معيار نہيں بناتا بلکہ اس کا معيار ’’انّ اکرمکم عند اللہ اتقکم ‘‘تقوي اور پرہيز گاري ہے پس يہ مربي قرآن، قرآن کے خلاف کوئي بات نہيں کہہ سکتا .لہذا يہ نظريہ صحيح نہيں ہے اور اسے امام کي طرف منسوب نہيں کر سکتے .

تحرير: سيد ارشد حسين موسوي کشميري


متعلقہ تحريريں :

تربيت اولاد

ايران کي تاريخ ميں عورت

اسلام ميں عورت کا حق وراثت ( حصّہ دوّم )

شريک حيات کے حقوق

گرمي‘ لُو‘ حفاظت اور سدابہار تندرستي