• صارفین کی تعداد :
  • 2564
  • 8/8/2011
  • تاريخ :

عُلوم الِقُرآن

قرآن حکیم

کلي طور پر وہ علوم جو آيات کے فہم و ادراک کے اور کلام خدا کے معاني کو سمجھنے کے لئے، قرآن سے پہلے مقدمةً سيکھے جاتے ہيں اُنہيں علوم قرآن کہتے ہيں اس تحرير ميں ہمارا مقصود يہي علوم اور منابع ہيں کيونکہ قرآن پيغمبر اسلام کا ايک ابدي معجزہ ہے جو درج ذيل موضوعات کا احاطہ کيے ہوئے ہے اخبار، قصص، حِکم، موعظہ، وعدہ، وعيد، امر، نہي، تنذير، تہذيب قلوب، تسکين نفوس، ارشاد، مطالعہ فطرت، وسيع کائنات ميں غور و فکر-

قرآن مجيد فصيح عربي زبان ميں نازل کيا گيا ہے

”‌ وَانِّہٰ لَتنزيلُ رَبّ العالِمين نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الاَمينً وعَليٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الُمنْذِرينَ بلِسٰانٍ
عَرَ بيٍ مُّبِين" تحقيق يہ قرآن عالمين کے رب کي طرف سے نازل کيا گيا ہے جبرئيل کے توسط سے اسے تمہارے قلب پر نازل کيا گيا تا کہ تم اس کے مواعظ اور حکمتوں کو لوگوں کے لئے بيان کرو- يہ قرآن فصيح عربي زبان ميں ہے-

ليکن جيسا کہ عربي زبان کا طريقہ ہے قرآن بھي حقيقت و مجاز، تصريح اور کنايہ ايجاز و تشبيہ و تمثيل اور امثال سے پُر ہے معارف قرآن کے طالب مجبور ہيں کہ وہ بلاغت و فصاحت کے علوم کو اچھي طرح سيکھيں کيونکہ الہي کلام کے اعجاز سے آگاہي متعلقہ امور سے مکمل واقفيت کے بغير ہرگز ممکن نہيں ہے ؟ ہرگز نہيں معرفت قرآن کے مقدمات سے آگاہي جس قدر زيادہ ہوگي کلام الہي کي روح اور گہرائي سے آگاہي بھي اسي قدر زيادہ ہو گي-

قرآن کريم ميں آيات متشابہ موجود ہيں جيسا کہ ارشاد خداوندي ہے:

”‌ ھُوَالَّذي اَنزَلَ عليک اَلکِتَاب منہ آيَات’‘ محُّکَمٰاتٌ ھُنَّ اُمُّ ا’لکِتَاب وَاُخَرُمُتَشٰابِہاٰت فَاَمّااَّلَذِين فِي قُلُوبِہم زيغُ فَيَتَّبعُونَ مَاتَشَابَہ منہُ اَبْتغَاءَ الفِتَنة وَابتغاءَ تاوِيلہ وَماَيعلم ُ تَاوِيلَہ اِلاَاللہ وَالَّراسَخونَ فيِ العلم يَقُولُون آمَنّابِہ کُلّ مِن عندرَبّناٰ وَماَيَذَّکَّرُ اِلاّاُو لُوالاَلباٰب" (وہي خدا ہے کہ جس نے تم پر کتاب نازل کي اس کتاب ميں بعض آيات محکم ہيں جو کہ کتاب خداکي ديگر آيات کے لئے اصل اور مرجع کي حيثيت رکھتي ہيںبعض متشابہ ہيں پس جن کے دل باطل کي طرف مائل ہيں وہ متشابہ کے پيچھے جاتے ہيں تاکہ اس ميں تاويل کر کے شُبہ اور فتنہ و فساد پيدا کريں حالانکہ انکي تاويل سوائے خدا کے کوئي نہيں جانتا ہے وہ کہتے ہيں کہ ہم سب محکم اور متشابہ پر جو ہمارے رب کي طرف سے نازل شدہ ہے ايمان لائے ہيں اور سوائے صاحبان عقل کے کوئي بھي اس حقيقت کو نہيں جانتا-

قرآني معارف کے طالِب حضرات کو چاہيے کہ وہ مشکلات کے وقت پيغمبر خدا اور آلِ رسول کي طرف رجوع کريں قرآن کي لغات اور معاني سے متعلق اُن سے سوال کريں

حضرت عمرنے ايک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر آيت ”‌ وَفاَ کِہَةً وَاَباًّ" کي تلاوت کي اور کہا فاکِہَة کو جانتا ہوں ليکن نہيں جانتا کہ اَبّاًّ سے کيا مراد ہے ؟-

بزرگ صحابي اور حبرالامةابن عباس فرماتے ہيں کہ ميں فاطرالسموات کا مطلب نہيں جانتا تھا ايک دفعہ دو عرب جھگڑتے ہوئے ميرے پاس آئے وہ ايک کنويں سے متعلق جھگڑ رہے تھے اُن ميں سے ايک نے کہا”‌افطرتھا" يعني ابتديت ھا يعني سب سے پہلے ميں نے کنواں کھودا ہے اس وقت ميں اس کے معاني سے آگاہ ہوا-

يہ نہيں کہا جاسکتا کہ دوسرے افراد مخصوصاً غير عرب لوگوں کو تفسير کي اور معاني ومطالب سمجھنے کي ضرورت نہيں ہے ايسے علوم شناخت قرآن کے لئے ضروري ہيں جب مقدماتي علوم سے انسان اچھي طرح آگاہ اور باخبر ہو جائے تو وہ قرآن کے اندر پوشيدہ علوم کي بھي کماحقہ معرفت حاصل کرسکتا ہے-

تحرير : ڈاکٹر سيد عبدالوہاب طالقاني

ahlulbaytportal


متعلقہ تحريريں:

قرآن مجيد کي آيات ميں محکم اور متشابہ سے کيا مراد ہے؟

کيوں بعض قرآني آيات متشابہ ہيں؟

کيا بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے؟

كتاب آسماني سے  مراد کيا ہے؟ (حصّہ سوّم)

كتاب آسماني سے  مراد کيا ہے؟ (حصّہ دوّم)