• صارفین کی تعداد :
  • 3505
  • 7/24/2011
  • تاريخ :

فرزند رسول حضرت امام علي نقي عليہ السلام

فرزند رسول حضرت امام علی نقی علیہ السلام

آخرکار حضرت امام علي نقي عليہ السلام اور آپ کے زمانے کے خلفاء کے درميان ہونے والي جنگ ميں ظاہري اور باطني طور پر فتح سے ہمکنار ہونے والے امام علي نقي عليہ السلام تھے؛ يہ بات ہماري تمام تقارير اور بيانات ميں ملحوظ خاطر رہني چاہيے-

حضرت امام علي نقي عليہ السلام کے دور امامت ميں يکے بعد ديگرے چھ خلفاء آئے اور واصل جہنم ہوئے- ان ميں آخري معتز تھا، جيسا کہ امام نے فرمايا، معتز نے امام عليہ السلام کو شہيد کيا اور کچھ ہي دنوں کے بعد خود بھي مر گيا- يہ خلفاء غالبا بڑي ذلت کي موت مرے؛ ايک اپنے بيٹے کے ہاتھوں مارا گيا، دوسرے کو اس کے بھتيجے نے قتل کر ديا اور اسي طرح عباسي خلفاء تتر بترہوگئے؛ ليکن اس کے برعکس اہل بيت پيغمبر کے محبين کي تعداد ميں اضافہ ہوتا رہا- حضرت امام علي نقي اور امام حسن عسکري عليہما السلام کے زمانے ميں، انتہائي سخت حالات کے باوجود اہل بيت پيغمبر رسول (ص) کے محبين کي تعداد ميں روزبروز اضافہ ہوتا رہا اور وہ مضبوط ہوتے گئے-

حضرت امام علي نقي عليہ السلام نے بياليس سال کي مبارک عمر پائي جس ميں سے بيس سال سامراء ميں بسر ہوئے جہاں آپ کي کھيتي باڑي تھي اور اس شہر ميں وہ کام کرتے اور زندگي گزارتے تھے- سامراء در اصل ايک فوجي چھاؤني کي مانند تھا جس کي تعمير معتصم نے کروائي تھي تاکہ ترکستان، سمرقند اور منگوليا نيز مشرقي ايشيا سے اپنے لائے جانے والے قريبي ترک غلاموں کو، اس ميں رکھا جاسکے البتہ يہ ترک آذربائيجان اور ديگر علاقوں ميں رہنے والے ہمارے ترکوں سے مختلف تھے- يہ لوگ چونکہ نومسلم تھے اس ليے ائمہ عليھم السلام اور مومنين کو نہيں پہچانتے تھے بلکہ اسلام کو بھي بخوبي نہيں سمجھتے تھے- يہي وجہ تھي کہ وہ لوگوں کے لئے پريشانياں کھڑي کرتے تھے اور عربوں يعني بغداد کے لوگوں سے ان کے بہت اختلافات ہوگئے تھے- اسي سامراء شہر ميں حضرت امام علي نقي عليہ السلام کے زمانے ميں اچھي خاصي تعداد ميں شيعہ علماء جمع ہو گئے اور امام عليہ السلام نے ان کے ذريعے امامت کا پيغام پورے عالم اسلام ميں خطوط وغيرہ کي شکل ميں پہنچانے ميں کاميابي حاصل کي- قم، خراسان، رے، مدينہ، يمن اور ديگر دور دراز کے علاقوں اور پوري دنيا ميں ان ہي افراد نے شيعہ مکتب فکر کو پھيلايا اور اس مکتب پر ايمان رکھنے والوں کي تعداد ميں روز بروز اضافہ ہؤا- حضرت امام علي نقي عليہ السلام نے يہ تمام کام ان چھ خلفاء کي خونچکاں شمشيروں کے سائے تلے اور ان کي مرضي کے برعکس انجام ديئے-

آپ عليہ السلام کي شہادت کے بارے ميں ايک معروف حديث ہے جس کي عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ سامراء ميں اچھي خاصي تعداد ميں شيعہ اس طرح سے اکٹھا ہو گئے تھے کہ دربار خلافت انہيں پہچان نہيں پاتا تھا، کيونکہ اگر وہ انہيں پہچان جاتا تو ان سب کو تہ تيغ کر ديتا ليکن چونکہ ان افراد نے اپنا ايک مضبوط چينل بنا ليا تھا اس ليے خلافت بھي ان لوگوں کي شناخت نہيں کر سکتي تھي- ان عظيم شخصيات يعني ائمہ عليھم السلام کي ايک دن کي سعي و کوشش، برسوں کا اثر رکھتي تھي؛ ان کي مبارک زندگي کا ايک دن، معاشرے پر برسوں تک کام کرنے والے ايک گروہ کي کارکردگي سے زيادہ اثر انداز ہوتا تھا-

ائمہ نے اس طرح دين کي حفاظت کي ہے ورنہ جس دين کے علمبردار متوکل، معتز، معتصم اور مامون جيسے افراد ہوں اور جس کے علماء يحي'ي بن اکثم جيسے افراد ہوں جو دربار خلافت کے عالم ہونے کے باوجود انتہائي درجے کے فاسق و فاجر تھے، ايسے دين کو تو بالکل بچنا ہي نہيں چاہئے تھا اور ان ہي ابتدائي ايام ميں اس کي بيخ کني ہو جاني چاہئے تھي - ائمہ عليھم السلام کي اس جدوجہد اور سعي و کوشش نے نہ صرف تشيع بلکہ قرآن مجيد، اسلام اور ديني تعليمات کا تحف0کيا؛ يہ ہے خدا کے خالص و مخلص بندوں اور اوليائے خدا کي خصوصيت- اگر اسلام ميں ايسے کمربستہ افراد نہ ہوتے تو بارہ سو، تيرہ سو برسوں کے بعد اسے حيات نو نہ ملتي اور وہ اسلامي بيداري پيدا کرنے ميں کامياب نہ ہوتا؛ بلکہ اسے دھيرے دھيرے ختم ہو جانا چاہئے تھا- اگر اسلام کے پاس ايسے افراد نہ ہوتے جنہوں نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے بعد ان عظيم اسلامي تعليمات کو انساني اور اسلامي تاريخ ميں موجزن کر ديا تو اسلام ختم ہو جاتا اور اس کي کوئي بھي چيز باقي نہ رہتي؛ اور اگر کچھ بچ بھي جاتا تو اس کي تعليمات ميں سے کچھ بھي نہيں بچنا چاہئے تھا؛ يہوديت اور عيسائيت کي طرح، جن کي اصل تعليمات ميں سے تقريبا کچھ بھي باقي نہيں بچا ہے - يہ کہ قرآن مجيد صحيح و سالم باقي رہ جائے، حديث نبوي باقي رہ جائے، اتنے سارے احکام اور تعليمات باقي رہ جائيں اور اسلامي تعليمات ايک ہزار سال بعد، انسان کي وضع کردہ تعليمات سے آگے بڑھ کر اپنے آپ کو ظاہر کريں، تو يہ غير معمولي بات ہے جو مجاہدت کي بدولت انجام پائي- البتہ اس عظيم کام کي راہ ميں زد و کوب کئے جانے، اسير ہوجانے اور قتل کئے جانے جيسي باتيں بھي ہيں تاہم ائمہ عليھم السلام انہيں کبھي خاطر ميں نہيں لائے-

مؤلف: آيت اللہ العظمي خامنہ اي

بشکریہ : الحسنین ڈاٹ کام


متعلقہ تحريريں:

امام ھادي عليہ السلام کے اخلاق و اوصاف

دسويں امام

ولادت حضرت امام ھادي عليہ السلام

علي نقي عليہ السلام

معصوم دوازدھم حضرت امام علي نقي عليہ السلام