• صارفین کی تعداد :
  • 3548
  • 7/12/2011
  • تاريخ :

اسلام میں عورت کا حق وراثت

سوالیہ نشان

اسلام ميں عورت کو  بہت ہي عزت و احترام  دينے کے  علاوہ ان کے دوسرے بہت سے حقوق کا خيال رکھنے کي تاکيد دي گئي ہے - انہي  حقوق ميں سے ايک وراثت کاحق بھي ہے جو عورت کو حاصل ہے - ارشاد رباني ہے کہ

لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا

’’ماں باپ اور رشتے داروں کے ترکے ميں خواہ وہ تھوڑا ہو يا زيادہ لڑکوں کا حصہ ہے اور ماں باپ اور رشتے داروں کے ترکے ميں خواہ وہ تھوڑا ہو يا زيادہ لڑکيوں کا بھي حصہ ہے اور يہ حصے خدا کي طرف سے مقررہ ہيں‘‘

القرآن، النساء، 4 : 7

يعني اُصولي طور پر لڑکا اور لڑکي دونوں وراثت ميں اپنا اپنا مقررہ حصہ لينے کے حقدار ہيں اور کوئي شخص انہيں ان کے اس حق سے محروم نہيں کرسکتا-

والدين کے مالِ وراثت ميں حق

قرآن مجيد ميں بڑي وضاحت کے ساتھ عورت اور مرد کے حقوق کا تعين کيا گيا ہے اور عورتوں کے حق وراثت کو بڑي تفصيل کے ساتھ بيان کيا ہے -

ارشاد باري تعالي ہے کہ

يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ.

’’تمہاري اولاد سے متعلق اللہ کا يہ تاکيدي حکم ہے کہ ترکے ميں لڑکے کے لئے دو لڑکيوں کے برابر حصہ ہے- اگر اکيلي لڑکي ہو تو اسے آدھا ترکہ ملے گا اور (ميت کے) ماں باپ ميں سے ہر ايک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا بشرطيکہ وہ اپنے پيچھے اولاد بھي چھوڑے، اگر اس کے کوئي اولاد نہ ہو اور وارث ماں باپ ہي ہوں تو ماں کے لئے ايک تہائي (ماں باپ کے ساتھ) بھائي بہن بھي ہوں تو اس کي ماں کا چھٹا حصہ ہوگا-‘‘

القرآن، النساء، 4 : 11

اس آيہ مبارکہ ميں يہ امر قابلِ غور ہے کہ تقسيم کي اکائي لڑکي کا حصہ قرار ديا گيا ہے، يعني سب کے حصے لڑکي کے حصے سے گنے جائيں گے- گويا تمام تقسيم اس محور کے گرد گھومے گي- جاہليت ميں لڑکيوں کو ترکے ميں حصہ نہيں ديا جاتا تھا- جيسا کہ اکثر دوسرے مذاہب ميں اب بھي ہے ليکن اسلام کي نظر ميں لڑکي کو ترکے کا حصہ دينا کتنا ضروري ہے، وہ اس سے ظاہر ہے کہ پہلے تو تقسيم وراثت کي عمارت کي بنياد ہي لڑکي کے حصے پر رکھي پھر يوصيکم اï·² کہہ کر فرمايا کہ يہ اللہ تعاليٰ کا نہايت تاکيدي حکم ہے-

اس آيت مبارکہ سے تقسيم کے يہ اصول معلوم ہوئے :

(1) اگر اولاد ميں لڑکے اور لڑکياں ہوں تو ايک لڑکے کو ايک لڑکي سے دگنا ملے گا اور اسي اصول پر سب ترکہ لڑکوں اور لڑکيوں ميں تقسيم ہوگا، صرف لڑکوں کا ذکر نہيں کيا، کيونکہ اس صورت ميں ظاہر ہے کہ وہ سب برابر کے حصے دار ہوں گے-

(2) اگر اولاد ميں لڑکا کوئي نہ ہو اور دو يا دو سے زيادہ لڑکياں ہوں- تو ان کو بھي دو تہائي ہي ملے گا-

حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے عمل مبارک سے ان معنوں کي تائيد ہوتي ہے- ايک صحابي سعد بن ربيع غزوہ احد ميں شہيد ہوگئے- انہوں نے اولاد ميں صرف دو لڑکياں چھوڑ ديں- سعد کے بھائي نے سارے ترکے پر قبضہ کر ليا اور لڑکيوں کو کچھ نہ ديا- اس پر سعد کي بيوہ آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي خدمت ميں حاضر ہوئي اور شکايت کي کہ سعد کي دو لڑکياں موجود ہيں، ليکن ان کے چچا نے انہيں ان کے باپ کے ترکے ميں سے ايک جبہ بھي نہيں ديا اس پر يہ آيت نازل ہوئي- آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے سعد کے بھائي کو بلوايا اور اسے حکم ديا کہ مرحوم کي دونوں بيٹيوں کو اس کے ترکے ميں سے دو تہائي اور بيوہ کو آٹھواں حصہ دے دو اور بقيہ خود رکھ لو-

1. ترمذي، السنن، کتاب الفرائض، باب ما جاء في الميراث البنات، 4 : 414، رقم : 2092

2. ابوداؤد، السنن، کتاب الفرائض، باب ماجاء في الميراث، 3 : 120، رقم : 2891

(3) اگر اولاد ميں صرف ايک لڑکي ہو تواسے ترکے کا نصف ملے گا اور باقي نصف دوسرے رشتہ داروں ميں تقسيم ہوگا-

(4) اگر اولاد کے ساتھ ميت کے ماں باپ بھي زندہ ہوں تو پہلے ان دونوں ميں سے ہر ايک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اور باقي دو تہائي مندرجہ بالا شرح سے اولاد کو ملے گا-

(5) اگر متوفي کے اولاد کوئي نہ ہو، صرف ماں باپ ہوں، تو اس صورت ميں ترکے کا تہائي ماں کو اور باقي باپ کو ملے گا-

(6) آخري صورت يہ بيان کي کہ اگر متوفي کے ورثا ميں ماں باپ کے ساتھ بھائي بہن بھي ہوں، تو ماں کا حصہ چھٹا ہوگا-

ممکن تھا کہ کوئي شخص ماں باپ کو اولاد کا وارث قرار دينے پر اعتراض کرتا، کيونکہ اس سے پہلے دنيا کے تمام مذاہب ميں صرف اولاد ہي وارث قرار دي گئي تھي- اس لئے فرمايا :

آبَآؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

’’تمہارے باپ دادا (بھي ہيں) اور اولاد بھي، ليکن تم نہيں جانتے کہ ان ميں سے نفع رساني کے لحاظ سے کون تمہارے زيادہ قريب ہے- (يہ حصے) اللہ نے مقرر کئے ہيں- بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے‘‘

القرآن، النساء، 4 : 11

يعني يہ اعتراض کہ باپ دادا کيوں وارث بنائے گئے ناداني کي بات ہے- اس حکم کي حکمت اللہ تعاليٰ ہي جانتا ہے کہ انسان کے لئے اوپر کے رشتے دار زيادہ اچھے ہيں يا نيچے کے- ہماري فلاح اللہ تعاليٰ کے احکام پر عمل کرنے ميں ہي مضمر ہے-

شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحريريں :

 بے پردہ معاشرے میں عورتوں کی مشکلات ( حصّہ دوّم )

بے پردہ معاشرے ميں عورتوں کي مشکلات

پردے کي مخالفت ميں ايک منطقي نتيجہ

عورت گھر کي اہم ہستي اور کنبے کا مہکتا پھول (حصّہ دوّم)

عورت گھر کی اہم ہستی اور کنبے کا مہکتا پھول