• صارفین کی تعداد :
  • 2247
  • 6/28/2011
  • تاريخ :

علی جو آئے تو دیوارِ کعبہ بھی مسکرائی تھی یا علی کہہ کر

حضرت امام علی علیہ السلام

آغوش پنجتن پاک سیدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم صلوٰۃ اللہ و سلامہ علیہا سیدہ فاطمہ بنت اسدنے علمی و روحانی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کے دادا سیدنا ہاشم بن عبدمناف سردار قریش اور کعبۃ اللہ کے متولی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک با صلاحیت اور سخی انسان تھے۔ انہوں نے اپنے ہی خاندان کی ایک باوقار خاتون سے عقد کیا جن سے ایک صاحبزادے اسد تشریف لائے جو سیدہ فاطمہ بنت اسد کے والد تھے۔  قبائل عرب میں ہاشمی خاندان اپنی اخلاقی و روحانی اقدار اور انسان دوستی کی بلندیوں کے باعث منفرد احترام رکھتا تھا۔ وقار و عظمت، سخاوت و صداقت، شجاعت و بسالت اور ان گنت خصائل بنی ہاشم کا وصف ہیں۔

سیدنا عبدالمطلب جو کہ انتہائی دور اندیش اور معاملہ فہم انسان تھے، آپ کی فطرت، ذہانت اور بے پناہ صلاحیتوں کا اندازہ کرتے ہوئے آپ کو اپنے عالیقدر فرزند ارجمند سیدنا ابو طالب  کے لئے منتخب فرمایا۔ آپ عرب کی عورتوں میں انتہائی عزت و احترام کی نظر سے دیکھی جاتی تھیں۔ آپ کے عقد کے موقع پر تمام قبائل عرب نے شرکت کی اور بارگاہ عبدالمطلب میں تہنیت پیش کی۔ سیدنا ابو طالب نے اپنا خطبہ ء نکاح ان الفاظ میں ارشاد فرمایا:

"سب تعریفیں پروردگار عالمین کے لئے ہیں جو عرش عظیم کا پروردگار ہے، جو مقام ابراہیم، مشعر الحرام اور حطیم کا پروردگار ہے۔  جس نے ہمیں سرداری،  کعبہ کی دربانی اور خدمت،  انتہائی بلند مقام دوستی،  اور اپنی حجت کی سرداری کے لئے منتخب فرمایا۔ جس نے ہمارے لئے مشاعر کو قائم کیا اور ہمیں تمام قبیلوں پر فضیلت عطا فرمائی اور اس نے ہمیں آل ابراہیم میں سے چن لیا اور حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے قرار دیا۔ میں فاطمہ بنت اسد سے عقد کرتا ہوں، حق مہر ادا کرتا ہوں اور معاملہ نافذ کرتا ہوں، تم ان سے پوچھ لو اور گواہی دو"۔

جناب اسد نے فرمایا، "ہم نے ان کی آپ سے شادی کی اور ہم آپ سے راضی ہوئے "۔  اس کے بعد تمام عرب کے وفود کی ضیافت کی گئی۔

حضرت فاطمہ بنت اسدنے جناب ابو طالب کے ہمراہ زندگی گزارنا شروع کی۔ آپ نے گھر کے معاملات اور تمام تر مسائل کی ذمہ داریوں کو صبر و صداقت، خلوص،  پاکیزہ سوچ، صاف دل،  انتہائی محبت اور پاکیزگی کے ساتھ پورا کیا۔

تحریر: ڈاکٹرپیر سید علی عباس شاہ

رضویہ اسلامک ریسرچ سنٹر