• صارفین کی تعداد :
  • 2126
  • 5/17/2011
  • تاريخ :

زندگی کے درس اور اخلاق کو فطرت سے سیکھیں (حصّہ ثانی)

بسم الله الرحمن الرحیم

قرآن میں ذکر ہے کہ :

 ہمیشہ آگے کی طرف حرکت کرو یا آپ کا علم زیادہ  ہو «ّزِدْنی‏ عِلْماً»  یا آپ کی  رشد زیادہ ہو.

(طه/114)

یا

«یَهْدی إِلَى الرُّشْدِ» یا آپ کی ھدایت میں اضافہ  ہو ۔

(جن/2)

پانی کے راستے میں کوئی چٹان یا رکاوٹ آ جاۓ تو وہ  رکتا نہیں بلکہ اپنا راستہ تبدیل کر لیتا ہے ۔ اس میں بھی ایک درس ہے کہ کسی رکاوٹ کے باعث انسان کی زندگی میں جمود نہیں آنا چاہیۓ ۔  پانی کو یہ معلوم ہے کہ جب اس نے توقف کیا تو وہ بدبودار پانی میں تبدیل ہو جاۓ گا یعنی سکوت آنے سے اس کی اہمیت میں کمی آ جاتی ہے ۔

پانی کے راستے میں اگر کوئی کوڑا کرکٹ آ جاتے تو  وہ اس کو  بھی  حرکت  میں  لے آتا ہے ۔ یہ بھی ندی دریاؤں کی ایک اور خاصیت ہے ۔

ہمیں بھی پانی کی اس خاصیّت سے سبق سیکھنا چاہیۓ کہ زندگی میں آنے والی رکاوٹیں ہماری زندگی میں جمود کا باعث  نہ بنیں اس کے لیۓ  ہمیں ہر طرح سے ان رکاوٹوں کے خلاف مزاحمت کرتے رہنا چاہیۓ ۔

 ندی  یا دریا  کا پانی اگر حد  سے زیادہ  ہو جاۓ تو وہ طغیانی کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ ایک حدیث ہے کہ اگر تین چیزیں نہ ہوتیں تو انسان بہت اکڑ جاتا : موت، بیماری اور فقیری ۔

  (بحار الانوار/ج5/ص316)

موت، بیماری اور فقیری تھوڑا بہت آدمی کو ایک حد میں رکھتی ہیں وگرنہ انسان بدمست اور سرشار ہو جاتا ۔

 جس طرح ندی کا  پانی جب حد سے زیادہ ہو تو وہ طغیانی کی شکل اختیار کر لیتی ہے اسی طرح جب انسان کو ہر چیز میسر ہو اور وہ کسی چیز کی کمی محسوس نہ کرے تو وہ تھوڑا بہت اپنے آپ سے باہر ہو  جاتا ہے اور پھر خدا کو بھولنے لگتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ خدا ہمیں یاد دلاتا رہتا ہے کہ اے انسان تو خود کچھ بھی نہیں ہے ۔

ایک اچھا انسان وہ  ہوتا ہے جس کا غصہ دل میں رہے اور  چہرے پر مسکراہٹ ۔ ندیوں اور دریاؤں کا پانی اپنے راستے میں لاتعداد پتھروں سے ٹکراتا ہے لیکن جب بھی  کوئی دریا یا سمندر کے کنارے جاتا ہے،اسے وہاں بیٹھ کر ہمیشہ خوشی ہی حاصل ہوتی ہے  ۔

انسان کو زندگی کے ہر  اک لمحے پر خوشی اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہمیں ان دریاؤں سے سبق لیتے ہوۓ اپنے چہرے پر مسکراہٹ لانے کی عادت ڈالنی چاہیۓ تاکہ جب کوئی دوسرا ہمیں دیکھے تو اسے آرام ملے ۔

حدیث ہے کہ «بَشَرَ فِی وَجْهِه‏ (بحار الانوار/ج72 /ص401)

 " مومن کا غصّہ اس کے دل میں چھپا ہوتا ہے مگر خوشی ظاہر  ہو رہی ہوتی ہے  "

جب ندی نالے سمندر میں گر جاتے ہیں تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے کہ

ندیاں جب سمندر سے جا ملتی ہیں تو خاموش ہو جاتی ہیں ۔ اس  کے بعد بخارات بنتے ہیں اور بارش برسانے کا باعث  بنتے ہیں ۔

انسان کو بھی یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ اسے آخر کار اپنے خالق حقیقی سے ہی جا کر ملنا ہے إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَیْهِ راجِعُونَ» (بقره/156) ، «یا أَیُّهَا الْإِنْسانُ إِنَّكَ كادِحٌ إِلى‏ رَبِّكَ كَدْحا»، الیه الْمَصیرُ»(طارق/5) ، « إِلى‏ رَبِّكَ الْمُنْتَهى‏» (نجم/42) ، «إِلَیْهِ راجِعُونَ»

اور اس نکتہ کو اپنی زندگی کا جزء بنا لینا چاہیۓ ہمیں اصلی آرام اپنے رب کے پاس ہی ملے گا ۔«أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ» (رعد/28)

یہ دنیا ہمارے لیۓ ایک درس ہے اور خدا کو پہچاننے کے لیۓ قرآن نے بارہا ہماری توجہ قدرت اور فطرت کی طرف دلائی ہے ۔

 تحریر : سید اسداللہ ارسلان


متعلقہ تحریریں:

 حق شناسی

سارے مسلماں بھائی بھائی

طبیب، جو خود مریض کے پاس جائے

قریش کو معاف کر دیا

ہمسفر کے حقوق