• صارفین کی تعداد :
  • 849
  • 5/14/2011
  • تاريخ :

پاکستان مسلسل امریکی مکاریوں کا شکار

سوالیہ نشان
میڈیا  کے پروپیگنڈے میں امریکی فوجیوں کی بہادری کے چرچے وہیں نظر آتے ہیں جہاں مدمقابل نہتی عورتوں ، بچوں کی صورت میں ہوں یا پھر ایسے علاقے جہاں کے باسی جدید ٹیکنالوجی سے بہت کم واقف ہوں ۔

اسامہ بن لادن کو ایک مدت پہلے امریکہ سے اٹھا کر افغانستان لانے والا امریکہ جب اس کا دشمن بنا تو اسی شخص کو تلاش کرنے کے لیۓ اس نے بےپناہ دولت خرچ کی ۔ یہ اور بات ہے کہ امریکہ یہ کہتا ہے کہ اس نے اسامہ کو پکڑنے کے لیۓ اتنی دولت اور وسائل خرچ کیۓ مگر دنیا اس بات کو ماننے سے قاصر ہے اور نظر یہی آ رہا ہے کہ امریکہ نے وسائل پر قابض ہونے اور دوسرے ممالک پر اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے کے لیۓ اسامہ بن لادن کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور جب اس کی ضرورت نہیں رہی تو  اسی کردار کو ایک عجیب ڈرامائی انداز میں ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ بات تو طے ہے کہ امریکہ نے ایبٹ آباد آپریشن میں بھی اپنی عادت کے مطابق پاکستان کو دھوکہ دیا ہے ۔ اس دھوکے کی نوعیت کیا ہے یہ وقت گزرنے کے ساتھ شاید دنیا کو معلوم ہو پاۓ مگر فی الحال مستقبل قریب میں وہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنی اس حرکت کو ماضی کی طرح درست اور حقیقی قرار دینے میں کامیاب ہو جاۓ گا ۔

ہم اسی سلسلے میں سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی  کے اس کالم پر نظر ڈالتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ   

کسی فرد سے متعلق دنیا کی سب سے بڑی، طویل عرصہ پر مبنی اور مہنگی تلاش تقریباً پندرہ برس جاری رہنے کے بعد 2 مئی کو اس وقت اختتام پذیر ہوئی جب صدربارک اوبامہ نے اعلان کیا کہ اسامہ بن لادن پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں مارا جا چکا ہے۔

اگرچہ بہت سے لوگ اسامہ سے متعلق امریکی بیان کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ کیا واقعی اسامہ اس مکان میں رہتا تھا اور کیا اس کو قتل کر دیا گیا ہے اور اس شک کا اظہار اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک یہ یقین کرنے کے لئے ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر دیئے جاتے۔ علاوہ ازیں اس سے بھی زیادہ پاکستان کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ یہ کیونکر ممکن ہوا کہ اسامہ ملک کے اہم شہر میں موجود فوجی چھاؤنی سے چند قدم کے فاصلے پر کئی سال تک مقیم رہا جبکہ اس کے قریب ہی فوجی درسگاہ کاکول اکیڈمی بھی تھی۔ اس کے علاوہ دنیا کے انتہائی مطلوب شخص کو ختم کرنے کے لئے امریکہ کے خصوصی فوجی دستوں کو بھی اس علاقے میں کسی بھی قسم کی مداخلت کے بغیر ہر قسم کی رسائی حاصل تھی۔

نام نہاد سرخ نشانات جن کا پاکستانی حکام اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں کہ ان کو عبور کرنے کی کسی صورت میں بھی کسی کو اجازت نہیں ہے تو یہ کیسے ممکن ہوا کہ ان خطوط کو عبور کر کے امریکی جوتوں نے پاکستانی سر زمین کو روند ڈالا اور ملک کی افواج کسی بھی قسم کا ردعمل ظاہر کرنے میں ناکام رہیں۔

 امریکیوں کی یہ کارروائی کوئی پہلی کارروائی نہیں تھی اس سے پہلے بھی ان کی جانب سے کئی مرتبہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں اس قسم کی کارروائیاں ہو چکی تھیں لیکن پاکستان میں اس قدر اندر داخل ہو کر ایبٹ آباد جیسے علاقے میں کبھی ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی تاہم واقعات سے متعلق دیئے گئے بیانات سے کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔

شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان