• صارفین کی تعداد :
  • 1456
  • 4/30/2011
  • تاريخ :

خلیج فارس کے سواحل ( حصّہ دوّم)

خلیج فارس

پہلی عالمی جنگ سے پہلے برطانوی حکومت نے ایک بار پھر بوشہر کے علاقے پر حملہ کیا۔ اور انیس سو تیرہ میں برطانوی فوجیوں اور اس علاقے کے دلیر لوگوں کے درمیان شدید جنگ ہوئي ۔

اس جنگ میں جنوبی ایران میں آئینی تحریک کے معروف حامی رئیس علی دلواری نیز تنگستان اور دشتستان کے شجاع لوگوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ سامراجیوں کے خلاف رئیس علی دلواری اور خطے کے علاقے کی جد و جہد سامراج سے مقابلے سے متعلق ایران کے بہادر باشندوں کی استقامت کی تاریخ کا ایک سنہری باب شمار ہوتی ہے۔

 اب جبکہ آپ صوبۂ بوشہر کی تاریخ سے کسی قدر آشنا ہو چکے ہیں ۔ تو مناسب معلوم ہوتا ہےکہ ہم آپ کو ساحلی شہر بوشہر کے بارے میں بھی اختصار کے ساتھ آگاہ کردیں ۔ بوشہر ایک بہت پرانا شہر ہے۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہےکہ یہ شہر ساسانی عہد میں بنایا گیا۔ امامزادہ بوشہر میں موجود ساسانی عہد سے متعلق سکہ اس دعوے کا ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ ریشہر کے کھنڈرات میں ماہرین آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے والی اشیاء سے بھی ہمارے اس دعوے کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ ایران کے دوسرے شہروں کی طرح بوشہر کو بھی بہت سے نشیب و فراز سے گزرنا پڑا ہے۔

کریم خان زند کے زمانے میں اس ساحلی شہر کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اور اس زمانے میں یہ ساحلی عراق میں واقع ساحلی شہر بصرہ کا ایک زبردست حریف بن چکا تھا۔ اپنے عروج کے زمانے میں یہ بندرگاہ خلیج فارس کا ایک بڑا تجارتی مرکز شمار ہوتی تھی اور بوشہر کے تاجر ہی بحر ہند اور خلیج فارس کی تجارت کا کام انجام دیتے تھے۔ بوشہر کا شمار ان شہروں میں سے ہوتا ہے جہاں لیتھو پرنٹنگ پریس[ چاپخانۂ سنگی] قیام کیا گیا۔

اور اس شہر میں ایران کے دوسروں شہروں سے پہلے برف اور بجلی کی پیداوار کے سلسلے میں کام کیا گیا۔ بوشہر کی سیاسی اور اقتصادی اہمیت کے پیش نظر اس شہر میں مختلف ممالک کے قونصلیٹ اور غیر ملکی کمپنیوں کے دفاتر موجود تھے۔

عصر حاضر میں بوشہر بہت پھیل چکا ہے اور اس کی تعمیر نو کی گئي ہے۔ یہ ایران کا ایک بہت اہم ساحلی شہر شمار ہوتا ہے جہاں زیادہ تر اقتصادی سرگرمیوں کا انحصار سمندری اشیاء پر ہے۔ اس اہم ساحلی شہر میں بہت سی جیٹیاں ہیں جہاں بحری جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں جن پر تجارتی سامان لادا اور اتارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس شہر میں بہت سی تاریخی عمارتیں بھی ہیں ۔ ان عمارتوں میں سے ریشہر کے کھنڈرات، آب انبار قوام، عمارت ملک، مسجد شیخ، سعدون، خانۂ قاضی اور متعدد زیارتگاہوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔

 

بشکریہ اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

جزیرہ قشم میں صرف  تجارتی مراکز ہی نہیں اور بھی بہت  قابل دید مقامات ہیں

گیلان میں شفا بخش چشمے

ایران کا سب سے لمبا بازار

 مشہد ایک چھوٹے گاؤں سے ایران کےدوسرے بڑے شہر ہونے تک

مشہد ایک چھوٹے گاؤں سے ایران کےدوسرے بڑے شہر ہونے تک  (حصّہ دوّم)