• صارفین کی تعداد :
  • 723
  • 4/6/2011
  • تاريخ :

نہ رکنے والی تحریک

بحرین

بحرین کی سیکورٹی فورسز نے غیر ملکی فوجوں کے ساتھ مل کر منامہ کے شمال مغربی علاقوں پر حملہ کیا ہے۔

العالم کی رپورٹ کے مطابق بحرین کی سیکورٹی فورسز نے غیرملکی فوجوں کے ساتھ ملکر بنی جمرہ نامی قصبے پر حملہ کیا اس حملے میں متعدد رہائشی مکانات کو انہوں نے منہدم کردیا بنی جمرہ قصبے میں بحرینی اور غیرملکی فوجوں کے حملے میں عام شہریوں کی املاک اور گاڑیوں کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔

دوسری طرف بحرین کے ہزاروں شہریوں نے حسن جاسم مکی نامی جوان کے جلوس جنازہ میں شرکت کی جسے بحرین کی سیکورٹی فورسز نے زیرحراست ایذائيں دے کر شہید کردیا تھا اس جلوس جنازہ کے شرکاء نے اپنے مطالبات کی تکمیل تک مظاہرے جاری رکھنے کے عزم کا ایک بار پھر اعلان کیا۔

جلوس جنازہ کے شرکا نے بحرین کے امور میں سعودی عرب کی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے اپنے ملک سے غیرملکی فوجوں کے نکل جانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ آل خلیفہ کی حکومت کی سرنگونی تک اپنا پرامن احتجاج جاری رکھیں گے۔

 اسلامی جمہوریہ ایران اور ترکی کے وزراء خارجہ نے بحرین کے حالات پر بات چیت کی ہے۔ علی اکبر صالحی اور احمد داؤد اوغلو نے اپنی ٹیلی فونی گفتگو میں علاقے کے حالات خاص طور پر آل سعود اور آل خلیفہ کے کارندوں کے ہاتھوں بحرین کے عوام کے قتل عام پر بات چیت کی

فریقین نے علاقے کی حساس صورتحال کے پیش نظر بحرین میں جاری مشکلات کو حل کرنے کے لئے باہمی صلاح و مشورے جاری رکھنے کی ضرورت پر زوردیا۔ ایران و ترکی کے وزراء خارجہ نے اسی طرح بحرینی عوام کے مطالبات پورے کئے جانے اور اغیار کی مداخلت کے خاتمے کی ضرورت پر بھی تاکید کی .

عالم عرب میں گزشتہ سال سترہ دسمبر کو عوامی تحریک کا نقیب بننے والے واقعے نے آج تمام عرب ممالک کے حکمرانوں کی نیند میں خلل پیدا کر دیا ہے۔

یہ تحریک دیکھتے ہی دیکھتے تیونس، مصر لیبیا، یمن بحرین سے ہوکر شام تک پنہچ گئ۔ فی الحال یہ مناظر عرب دنیا کے ان ملکوں میں دیکھے جا رہے ہیں جہاں عوام کو جمہوریت کی زندگی سے دور رکھا گيا ہے۔

حق ووٹ کے استعمال کے ذریعے حکومتوں کو منتخب کرنے کا عمل جمہوریت پسند عرب عوام کو بھی اپنا گرویدہ بنا چکا ہے تو عالم عرب کے حکمرانوں کو اس عوامی خواہش اور جذبہ کا احترام کرنے کی جانب توجہ دینے کا وقت آگيا ہے بحرین کی عوامی تحریک کے ایک سرکردہ لیڈر عبدالرؤوف شائب نے کہا ہے کہ بحرین کی انقلابی تحریک میں شیعہ اور سنی دونوں شامل ہیں اور یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک آئين میں ترامیم اور نااہل حکام کی برطرفی سمیت تمام عوامی مطالبات پورے نہیں ہوجاتے۔

 عرب ممالک میں آمریت اور بادشاہت کی شکل میں حکومت کی باگ ڈور جن لوگوں کے پاس ہے ان کی منطق ہی نرالی ہے اور انہوں نے ابن الوقتی کی پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ کہیں وہ مسلمان ہیں اور کہیں عرب اور جب ضرورت پڑتی ہے تو وہ خود کو سنی بناکر پیش کرتے ہیں۔90 کے ابتدائی عشرے میں، جس زمانے میں بوسنیا ہرزہ گووینا میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا تو یہ سب کے سب، خود کو عرب لیگ کا رکن بن کر چپ سادھے بیٹھے رہے۔ سعودی عرب کی فوج حرکت میں آئی نہ کویت و متحدہ عرب امارات کی غیرت کو جوش آیا۔جس وقت امریکہ اور مغرب نے سنہ 91 میں عراق کے خلاف پہلی جنگ چھیڑی تو ان ممالک نے یہ جانتے ہوئے بھی صدام حسین عرب بھی ہے اور سنی بھی، اپنی فوج ، فوجی اڈے اور تیل کے کنوئیں امریکیوں کے اختیار میں دے دیۓ ۔ 2008ء میں افغانستان پر جس وقت امریکہ نے چڑھائی کی تو سعودی عرب اور متحدہ عرب مارات کی حکومتوں نے طالبان سے یوں آنکھیں چرائیں کہ جیسے طالبان سے ان کا کبھی کوئی تعلق ہے نہیں تھا۔ بالکل بھول گئے کہ طالبان سنی مسلک کے پیرو ہونے کے ساتھ ساتھ اس نظرئے کو بھی اس خطے میں پروان چڑھا رھے ہیں کہ جس کے لئے سعودی حکام نے اپنی تجوریوں کے منہ کھولے ہوئے ہیں ۔ اسرائیل نے جولائی 2006 میں جس وقت لبنان پر 33 روزہ جارحیت کا آغاز کیا تو ان ممالک حکمرانوں کی بانچھیں کھل گئیں۔ تل ابیب کو خفیہ اور اعلانیہ حمایت اور حوصلہ افزائی کے پیغام بجھوائے جانے لگے ۔

اس جنگ میں انہوں نے خود کو سنی مسلک پیرو قرار دیکر شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے عربوں کا ساتھ دینے کی بجائے اسرائیل کی ضمنی حمایت کی پالیسی اختیار کی اور شیعہ عربوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے مشترکہ دشمن اسرائیل کا ساتھ دیا۔آمریت اور بادشاہت کی شکل میں عرب ممالک کے عوام پر مسلط ان حکمرانوں کی منافقت اس وقت کھل کر سامنے آ گئی جب جنوری 2009ء میں اسرائیل نے غزہ کے محصور شہریوں کے خلاف 22 روزہ جارحیت کا آغاز کیا۔

اور دنیا نے دیکھا کہ غزہ کے عرب اور سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے فلسطینیوں کا اسرائیلیوں نے نہایت بے دردی کے ساتھ قتل عام کیا اور دنیائے عرب کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب سمیت سارے آمر صرف تماش دیکھتے رہے۔ اس 22 روزہ جارحیت کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ کے شہریوں کی مدد و حمایت کے لئے جو تاریخی پیغام صادر فرمایا بعض عرب ملکوں میں اس کی تقسیم پر پابندی لگادی گئی اور ایسے لوگوں کو پکڑ پکڑ جیلوں ڈال دیا گیا جو رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام کو تقسیم کرنا چاہتے تھے ۔ یہ ہے ان آمروں اور خاندانی و مورثی حکومتوں کو چلانے والے حکمرانوں کا حال ۔ ان کا کوئی مذہب ہے نہ کوئی مسلک ۔ ان کی عربیت اور اسلامیت ان کے خاندان تک محدود ہے۔ یہ اپنے خاندان سے باہر کسی کو عرب سمجھتے ہیں نہ مسلمان۔

ان کا قبلہ واشنگٹن ہے اور اوباما ان کا امام ، یہی وجہ ہی کہ یہ بحرین میں قائم امریکہ فوجی اڈے کو بچانے کے لئے شاہ بحرین کی مدد و حمایت کے لئے آل سعود نے بھی اپنے فوجی میدان میں اتاردیئے ہیں اور امریکی ایما پر وہاں شیعہ سنی کی تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔امریکہ اور سعودی حکام یہ سمجھتے ہیں کہ بحرینی عوام کی تحریک کو سنی بادشاہت کے خلاف تحریک قرار دے کرآسانی سے دبایا جاسکتا ہے البتہ یہ ان کا خیال خام ہے اس لئے کہ شمالی افریقہ اور عرب ممالک کی طرح بحرین کے عوام بھی شاہی نظام اور اس ملک پر مسلط خاندانی حکومت سے تنگ آچکے ہیں اور جو تحریک انہوں نے شروع کی ہے وہ اب رکنے والی نہیں.

اردو ریڈیو تہران