• صارفین کی تعداد :
  • 3738
  • 4/5/2011
  • تاريخ :

شوہر کا انتخاب

مسلمان خاتون

عورت ايک بيوي اورہمسر کي حيثيت سے مختلف مراحل زندگي ميں اسلام کي خاص لطف و عنايت کا مرکز ہے۔ سب سے پہلے مرحلے ميں انتخاب شوہر کا مسئلہ ہے۔ اسلام کي نظر ميں عورت، انتخاب شوہر کے مسئلے ميںبالکل آزاد ہے اور کسي کو بھي يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ شوہر اور اس کے جيون ساتھي کے انتخاب ميں اُس پر کوئي چيز تھونپے يا اپني رائے مسلّط کرے۔ يہاں تک کہ اُس کے بھائيوں ،باپ يا اُس کے عزيز و اقارب اگر يہ چاہيں کہ اپني رائے يا مرضي و پسند کو اُس پر تھو نپيں کہ تم صرف فلاں شخص سے ہي شادي کرو تو انہيں ہرگز يہ حق حاصل نہيں ہے۔ يہ اسلام کي نظر ہے۔

لوگوں کے جاہلانہ آداب و رسوم اور ہيں اور اسلامي احکامات اور !

البتہ اسلامي معاشرے ميں تاريخي پيچ وخم کے نتيجے ميں جاہلانہ عادات و رسوم کا وجود رہا ہے۔ يہ جاہلانہ عادات و رسوم آج بھي بعض ممالک ميں موجود ہيں، خود ہمارے ملک کے بعض شہروں ميںبھي موجود ہيں۔ فرض کيجئے، جيسا کہ مجھے علم ہے کہ بعض قبائل ميں ہر لڑکي کے چچا زادبھائي کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ اِس لڑکي کي شادي کے بارے ميں اظہار رائے کرے! يہ کام غلط ہے، اسلام نے کسي کو ايسا کام کرنے کي ہرگز اجازت نہيں دي ہے۔ حقيقت سے بے خبر اور جاہل مسلمان جو بھي کام کريں اُسے اسلام کے کھاتے ميں نہيں ڈالنا چاہيے۔ يہ جاہلانہ عادات و رسوم ہيں۔ جاہل اور حقيقت سے بے خبر مسلمان، جاہلانہ آداب و رسوم کے مطابق بہت سے ايسے کام انجام ديتے ہيں کہ جن کا اسلام اور اُس کے نوراني احکامات سے دور دور تک کوئي تعلق نہيں ہے۔

اگر کوئي کسي لڑکي کو مجبورکرے کہ تم اپنے چچا زاد بھائي سے ہي شادي کرو تو اُس نے خلاف شريعت کام انجام ديا ہے ۔

اگر کوئي اِس لحاظ سے کہ وہ ايک لڑکي کا چچا زاد بھائي ہے اور (جاہلانہ عادات و رسوم کي بنا پر) اُس نے خود کو يہ حق ديا ہے کہ اُسے شادي کرنے سے منع کرے اور اُس سے کہے کہ چونکہ تم نے مجھ سے شادي نہيں کي پس ميں تم کو کسي اور سے شادي کرنے کي اجازت نہيں دوں گا۔ لڑکي کا چچا زاد بھائي اور جو بھي اُس کي اس فعل ميں مدد کرے گا ، وہ خلاف شريعت اور حرام فعل کے مرتکب ہوئے ہيں۔ اس فعل کا حرام اور خلاف شريعت ہونا بہت ہي واضح ہے اور فقہائے اسلام اس بارے ميں متفق القول ہيں۔

اگرفرض کريں کہ ايک قبيلہ دوسرے قبيلہ سے اپنے اختلافات مثلاً خون ريزي کے مسئلے کو حل کرنے کيلئے اس طرح اقدامات کريں کہ يہ قبيلہ ايک لڑکي کو اس کي اجازت کے بغير اورمرضي کے خلاف دوسرے قبيلے کے حوالے کردے، يہ کام خلافِ شريعت ہے۔ البتہ ايک وقت خود لڑکي سے اجازت ليتے ہيں تو اس ميںکوئي قباحت نہيں ہے۔ وہ لڑکي ہے، لڑکے کو چاہتي ہے تو اس ميں کوئي عيب نہيں ہے کہ وہ دوسرے قبيلے کے ايک نوجوان سے شادي کرے کہ اس طرح دونوں قبيلوں کا اختلاف ختم ہوسکتا ہے، يہ بہت اچھي بات ہے ليکن اگر لڑکي کو اس کام کيلئے مجبور کيا جائے تو يہ کام شريعت کے سراسر خلاف ہے۔

کتاب کا نام  : عورت ، گوہر ہستي 

تحریر   :حضرت آيت اللہ العظميٰ امام سيد علي حسيني خامنہ اي دامت برکاتہ 

ترجمہ  :  سيد صادق رضا تقوي 

 پیشکش : شعبۂ تحریر  و پیشکش تبیان  


متعلقہ تحریریں :

اسلام خواتين کے کمال، راہ ِحصول اور طريقہ کار کو معين کرتا ہے

مسلمان عورت ، استعمار اور ہمارا عزم ( تیسرا حصّہ )

مسلمان عورت ، استعمار اور ہمارا عزم ( حصّہ دوّم )

مسلمان عورت ، استعمار اور ہمارا عزم

حجاب کیوں ضروری ہے؟

حجاب کیوں ضروری ہے؟ ( حصّہ دوّم )

حجاب کیوں ضروری ہے؟ ( تیسرا حصّہ )