• صارفین کی تعداد :
  • 841
  • 3/6/2011
  • تاريخ :

عبد القادر کے نام

پهول

اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر

بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں

ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط

اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں

اہل محفل کو دکھا دیں اثر صیقل عشق

سنگ امروز کو آئینۂ فردا کر دیں

جلوۂ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو

تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں

اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر

قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں

رخت جاں بت کدۂ چیں سے اٹھا لیں اپنا

سب کو محو رخ سعدی و سلیمی کر دیں

دیکھ! یثرب میں ہوا ناقۂ لیلی بیکار

قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں

بادۂ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز

جگر شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں

گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ

چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں

شمع کی طرح جییں بزم گہ عالم میں

خود جلیں، دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں

""ہر چہ در دل گذرد وقف زباں دارد شمع

سوختن نیست خیالے کہ نہاں دارد شمع""

شاعر کا  نام : علامہ محمد اقبال ( iqbal )

کتاب کا نام : بانگ درا  ( bang e dara )

پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں :

عاشق ہر جائی (2)

عاشق ہر جائی (1)

سلیمی

وصال

چاند اور تارے