• صارفین کی تعداد :
  • 811
  • 3/3/2011
  • تاريخ :

علاقے میں اسلامی بیداری اور ایران کے بارے میں نیتن یاہو کا دعوی

بنیامن نتن یاہو

شمالی افریقہ اور علاقے کے عرب ممالک میں اسلامی بیداری کی لہر اور انقلابی عوام کے قیام نے امریکہ اور صیہونی حکومت کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف سے گفتگو میں شمالی افریقہ اور عرب ممالک میں جاری انقلابوں کے بارے میں فریب کارانہ بیان میں ڈکٹیٹروں کی سرنگونی پر مسرت کا اظہار کیا لیکن علاقے کے حالات و واقعات پر اپنی تشویش کو بھی نہیں چھپایا اور کہا کہ اسرائیل علاقے میں وہ واحد جگہ ہے کہ جو علاقے کے طوفان سے متاثر ہوتی ہے۔

نیتن یاہو نے اس بات پر کہ جسے انہوں نے ایران میں جاری تبدیلیوں سے مغرب کی بےتوجہی کا نام دیا، تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران نے ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی حاصل کر لی تو پھر وہ پوری دنیا کے تیل کے ذخائر پر قابض ہو جائے گا اور علاقے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی اور یہ صورت حال یورپ اور اسرائیل کے لیے خطرناک ہو گي۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا گیا ہے کہ جب اسرائیل کے وزیرجنگ ایہود باراک نے بھی منگل کے روز اسرائیل کے ٹی وی چینل دو سے بات چیت میں عرب دنیا میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو ایک تاریخی المیہ قرار دیا، ایہود باراک کے مطابق اس صورت حال سے خطرات اور عدم استحکام پیدا ہو گا۔ اس سے قبل بھی اسرائیل کے صدر شیمون پرز نے دعوی کیا تھا کہ وہ یہ دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں کہ عرب دنیا میں تبدیلیاں آ رہی ہیں کیونکہ یہ تبدیلیاں علاقے میں جمہوریت کے فروغ میں مدد دیں گی۔

ان متضاد بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت مشرق وسطی کے علاقے میں اسلامی بیداری سے کسی بھی حکومت سے زیادہ خوف زدہ ہے۔ صیہونی وزیر اعظم کا حالیہ بیان بھی اس حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ درحقیقت کہا جا سکتا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں امریکہ مغربی ممالک اور صیہونی حکومت کے بےبنیاد دعووں کا مقصد مشرق وسطی کے اسلامی ملکوں میں جاری واقعات اور حقائق سے عالمی رائے کی توجہ ہٹانا ہے۔ اسرائیلی حکام کا حیران کن موقف علاقے میں بھرپور اور گہری عوامی تحریک کو گمراہ کرنے کے لیے مذموم کوششوں کا ایک حصہ ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ شمالی افریقہ اور عرب مشرق وسطی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسلامی بیداری کا نتیجہ ہے اور یہ امر ان کے لیے حیران کن ہے۔ امریکہ اور صیہونی حکومت کہ جو علاقے اور دنیا میں تمام مشکلات و مسائل کی جڑ ہیں، علاقے میں آنے والی تبدیلیوں کا پہلا ہدف سمجھے جاتے ہیں اور اس بات کو اسرائیلی حکام نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ اس بنا پر علاقے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی مہم جوئی خارج از امکان نہیں ہے۔ کیونکہ تجربے نے یہ بتایا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہو چکے ہیں انہوں نے علاقے کی قوموں کو اپنے مداخلت پسندانہ اقدامات کا بہانہ قرار دیا ہے اور علاقے کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرنے میں ان کی دھوکے اور فریب پر مبنی پالیسیاں بھی ان کے مداخلت پسندانہ اقدامات کے لیے ایک مقدمے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

اردو ریڈیو تہران