• صارفین کی تعداد :
  • 2254
  • 2/23/2011
  • تاريخ :

امام کے بارے میں وضاحت (حصّہ سوّم)

بسم الله الرحمن الرحیم

دوسری حدیث:  ”حدیث المنزلة“

امام مسلم نے اپنی سند کے ساتھ اس حدیث کو بیان کیا ھے کہ حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا:

”انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی“

(اے علی تم میں اور مجھ میں وھی نسبت ھے جو جناب ھارون اور جناب موسیٰ  (ع) کے درمیان تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں)

اگرچہ یہ حدیث مختصر ھے لیکن پھر بھی بہت سے معنی کی طرف اشارہ کرتی ھے لیکن اگر کوئی طائرانہ نظر ڈالے گا تو اس پر حدیث کے معنی واضح نھیں هوں گے لیکن اگر کوئی شخص اس حدیث میں غور وفکر کرے گا تو اس پر یہ معنی بہت واضح هوجائیں گے۔

چنانچہ یہ حدیث شریف حضرت علی علیہ السلام کے لئے اشارہ کرتی ھے :

۱۔ حضرت علی علیہ السلام رسول اللہ   کے وزیر ھیں کیونکہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے وزیر تھے:

<وَاجعلْ لی وَزِیراً منْ اٴَھلی>

”اور میرے کنبہ والوں میں سے میرے بھائی ھارون کو میرا وزیر بنا دے“

۲۔آپ رسول اللہ  کے بھائی ھیں کیونکہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے بھائی تھے:

<ہَارُوْنَ اَخِیْ>

”میرے بھائی ھارون“

۳۔ آپ ھی رسول اللہ  کے شریک ھیں کیونکہ جناب ھارون بھی موسیٰ کے شریک تھے:

<وَاشْرِکْہُ فِیْ اٴَمْرِیْ>

”اور میرے کام میں اس کو میرا شریک بنا“

۴۔ حضرت علی علیہ السلام خلیفہ رسول ھیں ، جیسا کہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے خلیفہ تھے:      

<وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ہَارُوْنَ اخْلُفْنِی فِیْ قَوْمِی>

”(اورچلتے وقت ) موسی نے اپنے بھائی ھارون سے کھا کہ تم میری قوم میں میرے جانشین هو“

۵۔ امامت نبوت سے مشتق ھے کیونکہ حدیث میں ضمیر ”انتَ“ امامت کی طرف اشارہ کرتی ھے اور لفظ ”منّی“ نبوت کی طرف اشارہ کرتی ھے اور یھاں پر حرف ”جر “نشو ونمو اور وجود کے معنی میں ھے اور یہ نشو ونما اس بات کی طرف اشارہ کرتے ھیں کہ یہ دونوں درجہ میں برابر ھیں تب ھی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرق کو واضح کرتے هوئے فرمایا: 

”الا انہ لا نبی بعدی“ (مگر میرے بعد کوئی نبی نھیں)

اور جب جناب موسیٰ (ع) نے خدوندعالم سے درخواست کی کہ ان کے اھل سے ان کا وزیر معین کردے (جیسا کہ مذکورہ آیت بیان کرتی ھے) تو یہ درخواستِ جناب موسیٰ اس بات پر بھی دلالت کرتی ھے کہ نبی کی خلافت و وزارت خدا کے حکم سے هوتی ھے لوگوں کے انتخاب اور اختیار سے نھیں۔

جب ھم ”حدیث منزلت“ کے بارے میں غور وفکر کرتے ھیں تو یہ بھی واضح هو جاتا ھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سب کچھ فقط حضرت علی علیہ السلام کے اکرام اور تجلیل کی غرض سے نھیں بیان کیا بلکہ اس کے پسِ پردہ ایک بہت اھم مقصد تھا اور وہ یہ کہ آپ امت کو اس بات پر متوجہ کرنا چاہتے تھے کہ نبی اپنے بعد حکومت کی ریاست اور کشتی اسلام کی مھار کس کے ھاتھ میں دے کر جا رھے ھیں۔

اور جیسا کہ یہ حدیث شریفہ اشارہ کرتی ھے کہ حضرت علی (ع)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شریک ھیں لیکن یہ شرکت کسی تجارت، صنعت اور زراعت میں نھیں ھے بلکہ آپ کی شرکت دین اور اسلام میں ھے اور اسلام میں پیش آنے والی تمام زحمتوں کو برداشت کیا اور دین کی اھم ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی،اور چونکہ ایک معمولی انسان شرکت کے حدود کو آسانی سے نھیں سمجھ سکتا (خصوصاً جبکہ یہ بھی معلوم هو کہ جناب ھارون نبی بھی تھے) اسی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حدیث منزلت میں ایسی قید لگا دی تاکہ اشکال نہ هونے پائے اور اس شرکت کی حدود بھی معین کردی اسی وجہ سے مطلق طور پر نبوت کی نفی کردی اور نبوت کو شرکت کے حدود سے نکالتے هوئے فرمایا:

” میرے بعد کوئی نبی نھیں“

اور شاید اس حدیث کے معنی اس وقت مزید روشن هوجائیں جب یہ معلوم هو کہ حدیث منزلت کو رسول اسلام  نے اس وقت بیان فرمایا جب آپ مدینہ منورہ سے ”جنگ تبوک“ میں  جا رھے تھے اس وقت نائب اور قائم مقام بنایا ۔

لیکن شیخ ابن تیمیہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ھیں کہ اس حدیث سے حضرت علی علیہ السلام کی کوئی بھی فضیلت ثابت نھیں هوتی کیونکہ جس وقت رسول اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنگ تبوک کے لئے نکلے ھیں تو آپ کے ساتھ تمام اصحاب اور تمام مومنین تھے اور مدینہ میں عورتوں اور بچوں کے علاوہ کوئی نھیں تھا یا وہ لوگ جو جنگ میں نھیں گئے تھے چاھے وہ مجبور هوں یا منافق تو ایسے لوگوں پر کسی کو خلیفہ بنانا کوئی بھی فضیلت نھیں رکھتا۔

لیکن حدیث پر غور و فکر کرنے والاشخص ابن تیمیہ کے نتیجہ سے مطمئن نھیں هوتا بلکہ ایک دوسرا نتیجہ نکالتا ھے کہ:

 اس وقت مدینہ منورہ مرکز نبوت اور دار السلطنت تھا۔

جب کسی حکومت کا رئیس اپنے دار السطنت سے کسی دوسری جگہ جاتا ھے (جیسے تبوک) اور چونکہ اس وقت کا مواصلاتی نظام بہت ھی کمزور هوتا تھا تو گویا جانے والا ایک طویل مدت کے لئے وھاں سے غائب هو رھا تھا اور چونکہ جنگ کے مسائل ایسے هوتے ھیں جن کے بارے میں یہ بھی معلوم نھیں هوتا کہ کب ختم هوگی اور کب پلٹ کر آنا هوگا تو ایسے موقع پر کسی رئیس کا نائب بنانا اور اس کو دار السلطنت میں جانشین بنا کر چھوڑنا ایک عظیم معنی رکھتا ھے اور وہ بھی ایسے ماحول میں جب دشمنان اسلام اور منافقین کی طرف سے ھر ممکن خطرہ موجود هو اور وہ ایک ایسی فرصت کی تلاش میں هوں کہ موقع ملنے پر اسلام اور مسلمانوں کو نابود کر ڈالیں، لہٰذا ایسے ماحول میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ معین کرنا ایک عظیم فضیلت ھے۔

بشکریہ صادقین ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

امامت کے عام معنی (حصّہ نهم)

امامت کے عام معنی (حصّہ هشتم)

امامت کے عام معنی (حصّہ هفتم)

امامت کے عام معنی (حصّہ ششم)

امامت کے عام معنی ( حصّہ پنجم)