• صارفین کی تعداد :
  • 3067
  • 2/22/2011
  • تاريخ :

 اسلام نے خمس کا حکم کیوں دیا ھے ؟

بسم الله الرحمن الرحیم

۱۔ اسلام نے خمس کا حکم کیوں دیا ھے ؟

۲۔کیا یہ ایک طرح کا امتیاز نھیں ھے ؟

اسلام رسول کی اولاد اور قرابت داروں کے لئے مخصوص سھم کاقائل ھے جبکہ اسلام کے قوانین میں کسی طرح کا امتیاز نھیں پایا جاتا ۔ یہ ایک بڑا اقتصادی امتیاز ھے اوراس سے قطع نظر سادات کا مسئلہ غیر سادات سے الگ کیوں رکھا گیا ھے ؟ فرض کیجئے اگر دنیا کے سارے لوگ مسلمان ھو جائیں اور خمس دینا چاھیں ( حضرت حجت کے زمانہ میں حتماً ایسا ھی ھو گا ) تو اس سے اتنا بڑا بجٹ بن جائے گا کہ امریکہ جیسے مالدار ملک کا بجٹ بھی اتنا نھیں ھو گا ۔ آپ کھتے ھیں کہ اس رقم کا نصف حصہ یعنی سھم امام مسلمانوں کے اوپر خرچ کریں اور بقیہ نصف حصہ سادات کو دیں ۔ اگر دنیا کے سارے سادات کو جمع کریں اور انھیں سھم سادات دیں تو ایک سال کے اندر ان میں ھر ایک ارب پتی بن جائے گا ، اور اگر ھر سال یہ کام انجام پائے تو کیا حال ھوگا ۔

اس وقت دنیا میں جتنے شیعہ موجود ھیں اگر وھی اپنا خمس نکالیں اور اس کا نصف حصہ سادات کو دیں اور اس کا حساب لگایا جائے تو ایک عظیم بجٹ شمار ھوگا ۔ جبکہ سارے سادات بھی فقیر نھیں ھیں انکے درمیان کچہ ثروت مند بھی ھیں جنکے اوپر خمس واجب ھے ۔ لھذا اس عظیم بجٹ کا مصرف کیا ھوگا ؟ کیا یہ سادات کے لئے امتیاز نھیں ھے ؟ اس کے علاوہ اگر ایک دوسرے مسئلہ کو مد نظر رکھیں تو یہ اعتراض دوسری شکل میں ھوتا ھے کہ جب ھم احکام شرعیہ کی کتابوں کو پڑھتے ھیں اور روایات اور شیعہ فقہ کا مطالعہ کرتے ھیں تو پتہ چلتا ھے کہ ھر سید کو خمس نھیں دیا جا سکتا بلکہ ایسے سید کو خمس دیں جسکے اندر سارے شرائط موجود ھوں جیسے وہ متجاھر بالفسق (علی الاعلان گناہ کرنے والا ) نہ ھو ، پیسے کو حرام طریقے سے خرچ نہ کرتا ھو اور فقیر ھو یعنی اتنا مال نہ ھو کہ زندگی گذار سکے اور نہ ھی اسے حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ھو ۔

لھذا اگر کوئی ایسا سید ھو جو اتنی طاقت و قدرت رکھتا ھو کہ کاروبار کے ذریعہ اپنی زندگی معمول کے مطابق چلا سکے تو اسکو خمس نھیں دیا جائے گا ۔ پس ھر سرمایہ دار اور طاقتور سادات کو خمس نھیں دیا جا سکتا بلکہ سید فقیر جنکی تعداد بھت کم ھے صرف انھیں کو خمس دیا جائے گا ۔

یھاں پر ایک دوسرا اعتراض یہ ھوتا ھے کہ اگر ھر فقیر غیر سید کو زکات دینا چاھیں تو ایک دفعہ میں اتنا دیں کہ وہ مالدار ھو جائے دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیئے کہ ایک شخص سید نھیں ھے لیکن فقیر ھے اور خمس کے علاوہ رقم موجود ھے مثلا زکات کی رقم ھے تو کیا ھم اکٹھا اس کو مثلا ایک لاکہ روپئے دے سکتے ھیں جبکہ اس کا سالانہ خرچ صرف دس ھزار روپئے ھے اور بقیہ نوے (۹۰) ھزار روپئے اس کا سرمایہ قرار پاتا ھے، تو جواب دیا گیا کہ ھاں ! ایسا کیا جاسکتا ھے ۔

سادات کے بارے میں کیا مسئلہ ھے ؟ کیا ایک سید کو اکٹھا اتنا خمس دیا جا سکتا ھے جو اس کے سالانہ خرچ سے زیادہ ھو اور بقیہ وہ اپنے لئے سرمایہ قرار دے تو کھا گیا کہ ایسا نھیں کر سکتے ۔

اس طرح کے شرائط سادات کے بارے میں ھیں کہ جو شخص خمس لے وہ فقیر ھو ، اسے صرف سالانہ اخراجات کی مقدار بھر خمس دیا جا سکتا ھے، اس کو خمس کی رقم سے غنی نھیں کیا جا سکتا ۔ لھذا ھم یھاں ایک دوسری مشکل میں گرفتار ھو گئے ، ابھی تک ھم کھتے تھے کہ اگر دنیا کے لوگ خمس دینے لگیں اور اس کی رقم سادات کو دیدیں تو وہ ارب پتی بن جائیں گے ، یھاں پر ا چانک ھمارا سامنا ایک نئے قانون سے ھوا کہ خمس کی رقم سرمایہ داروں اور طاقتور لوگوں کو نہ دیں بلکہ ان میں جو فقیر ھیں ان کو دیں وہ بھی صرف سال بھر کے خرچ کے مقدار بھر، لھذا اس خمس کے بجٹ کا کوئی مصرف نھیں رھا ۔ ھم کس طرح سے اس کو خرچ کریں ؟

سابقہ بحث کو دیکھتے ھوئے یہ کھا جاسکتا ھے کہ خمس سادات کے لئے امتیاز کھنا، غلط ھے، اس لئے کہ اسلام کھتا ھے کہ صرف فقیر سید کو خمس دو ، اس کے علاوہ یہ بھی شرط ھے کہ اسے سال بھرکے خرچ سے زیادہ نہ دو ۔ لیکن ھمارے لئے ایک دوسری شکل میں یہ اعتراض باقی رہ جاتا ھے کہ اس عظیم بجٹ کو اسلام نے کس مصرف کے لئے معین کیا ھے ؟ تو ھمارے آئمہ نے اس کا جواب یہ دیا ھے کہ در اصل اس آیہ میں جو سھم خدا ، سھم رسول ، سھم قرابت دار ، سھم یتیم ، سھم مسکین اور سھم ابن سبیل کا ذکر آیا ھے اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ ان میں جا کر مال خمس کو تقسیم کرو ۔ بلکہ یہ لوگ ان سھموں کے عنوان ھیں ۔ خمس کا بنیادی اور اصل مقصد یہ ھے کہ رسولکے دست مبارک میں پھونچے اور ان کے بعد آئمہ کے پاس پھونچے ۔ کیونکہ رسول اور امام علیہ السلام اس بجٹ سے سادات کی کفالت کرتے ھیں۔ اگر ایک وقت ایسا آجائے کہ خمس کی رقم ان حضرات کے پاس نہ پھونچ سکے تو دوسرے مَد سے انکی کفالت کریں اور اگر یہ رقم پھونچ گئی تو معمول کے مطابق انکی کفالت کریں ۔ اور بقیہ رقم کو عمومی کاموں پر خرچ کریں ۔ یھی وجہ ھے کہ اگر چہ ھمارے زمانے میں فقیر سید زیادہ ھیں اور ان سے زیادہ خمس دینے والے موجود ھیں لیکن بعض علماء احتیاط کرتے ھیں اور فرماتے ھیں کہ سادات کو خمس بغیر مجتھد اور حاکم شرع کی اجازت کے نہ دیں ۔ اسی بنا پر آئمہ علیھم السلام نے فرمایا ھے کہ” لہ فضل و علیہ ،نقص “یعنی سادات امام علیہ السلامیا نائب امام کی کفالت میں رھیں اگر مال خمس میں کمی واقع ھو جائے تو امام علیہ السلام یا نائب امام دوسری مدسے انکی ضرورت پورا کریں اور اگر خمس زیادہ مل جائے تو اسے سادات فقیر کو نہ دیں بلکہ مسلمانوں کی عام ضروریات پر خرچ کریں ۔ لھذا اگر کوئی یہ خیال کر ے کہ شیعہ مذھب نے سادات کے لئے ایک عظیم بجٹ قرار دیا ھے اور اس طرح سے انھیں ثروت مند بنانا چاھا ھے، غلط ھے اور یہ عوامی کھاوت کہ”سید کو خمس ملتا ھے چاھے اسکے گھر کا ناؤ دان سونے کا ھو، جھوٹ ھے بلکہ سچ یہ ھے کہ اگر وہ کام کرنے کی طاقت رکھتا ھے تو چاھے اسکے گھر میں کچہ بھی نہ ھو اسے خمس نھیں مل سکتا ھے ۔ ھمارا اسلام اور ھماری فقہ جس بات کو کھتی ھے اور جو چیز احکام شرعی کی کتابوں میں تحریر ھے وہ وھی ھے جو یھاں پر عرض کیا گیا ۔


متعلقہ تحریریں:

ترویج اذان؛ اھل سنت كی نظر میں

فلسفہ نماز شب

حج  کے  متفرق مسائل

جہاد

جہاد ( حصّہ دوّم )