• صارفین کی تعداد :
  • 3865
  • 2/9/2011
  • تاريخ :

اعتراض چند وجوھات سے مردود اور باطل ھے

بسم الله الرحمن الرحیم

1۔ كیونكہ خداوند عالم كے بارے میں حكمِ عقل كے فرض كی گفتگو نھیں ھے بلكہ اس چیز كا بیان ھے جس سے بندوں كے معاملات میں فضل ولطف كی امید هو، كیونكہ ھم اس بات كو مكمل طور پر قبول كرتے ھیں كہ محال پر تكلیف كرنا یا جس كام كے انجام دھی كی قدرت نہ هو، اس كا حكم دینا یا گناہكار كوجنت میں داخل كرنا یا مطیع اور فرمانبردار كو جہنم میں داخل كرنا، ان تمام چیزوں پر خداوندعالم مكمل قدرت ركھتا ھے، اور ھر طریقہ كا تصرف كرسكتا ھے اور كوئی بھی حكم كرسكتا ھے، اور ھم یہ بھی یقین ركھتے ھیں كہ وہ اس طرح كے كام انجام نھیں دیتا لیكن اس كا ان كاموں كو انجام نہ دینا اس كے لطف وكرم كی وجہ سے ھے نہ یہ كہ وہ ان كاموں كو انجام دینے سے قاصر اور عاجز ھے۔

2۔ اگر ھم ظلم كو قبیح نہ مانیں تو پھر انسان خداوندعالم كے احكامات كی پیروی نھیں كرے گا كیونكہ ان احكامات اور ان كے نتائج كے درست هونے پر یقین نہ هوگا، اور اسی طرح اس كو خدا كے وعدہ وفا كرنے پر بھی اطمینان نہ هو گا۔

جبكہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

<اِنَّ اللّٰہَ لاٰ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ>

”بے شك خدا اپنے وعدہ كے خلاف نھیں كرتا“

كیونكہ یہ سب كچھ اس اعتبار سے ھے كہ ظلم، كذب اور خلف وعدہ قبیح ھے، لیكن اگر مسئلہ قبح وقباحت كو ہٹالیا جائے جیسا بعض لوگوں كا گمان ھے تو پھر انسان، خدا كی اطاعت، خواہشات نفس كی مخالفت هوا اور نفس امارہ سے جنگ پر اطمینان اور اعتماد نھیں كرے گا۔

3۔ ظلم كسی غیر پر تعدی كرنے سے مخصوص نھیں ھے بلكہ درمیانی راستہ سے افراط وتفریط كرنا بھی ظلم ھے، اسی وجہ سے كھا جاتا ھے كہ فلاں شخص نے اپنے اوپر ظلم كیا، جبكہ اس سے مراد یہ هوتی ھے كہ وہ شخص اپنے تصرف، لباس، طعام، اور خرچ میں راہ اعتدال سے خارج هوگیا ھے، درحالیكہ یہ سب كچھ اس كی ملكیت میں هوتے ھیں، اور وہ اپنے مال میں تصرف كرنے میں بھی مكمل آزاد هوتا ھے لیكن مذكورہ طریقہ كو عرف عام میں ظلم شمار كیا جاتا ھے۔

مثلاً اگر كوئی انسان كسی حیوان كو مارے جبكہ وہ حیوان اس كی ملكیت بھی هو، اور اس كا فرمانبردار، اور اس كو اذیت نہ دینے والا هو تو كیا اس كو مارنے پر یہ عذر پیش كرسكتا ھے كہ میں تو اس كا مالك هوں؟!

4۔ ظلم قبیح ھے۔

اگر انسان اپنے افعال كے انجام دینے پر قادر اور مختار نہ هو، اور صرف اس كے ارادہ سے ایجاد هوجائے تو پھر خداوندعالم (معاذ اللہ) ”اظلم الظالمین“ هوجائےگا، كیونكہ گناہگار شخص كو عذاب دیا جانا ضروری ھے اور چونكہ معصیت انسان كے اپنے اختیار سے نھیں ھے، لہٰذا اس كو عذاب كرنا كئی گنا ظلم سے بھی بُرا ھے۔

بشکریہ : صادقین ڈاٹ کام


متعلقہ  تحریریں:

جبر و تفویض

جبر و اختیار کی وضاحت

جبر و اختیار

اسلام اور عدالت اجتماعی

اسلام اور عدالت اجتماعی  (حصّہ دوّم)