• صارفین کی تعداد :
  • 17342
  • 2/6/2011
  • تاريخ :

حالی کے نظم فکری کا جائزہ (حصّہ سوّم)

مولانا الطاف حسین حالی

قوم کی غفلت

مسد س میں حالی نے قوم کی ترقی و عروج کو نہایت موثر انداز میں بیان کرنے کے بعد اس بات کو بڑے دکھ کے ساتھ بیان کیا ہے۔ کہ مسلمانوں نے تنزل پر قناعت کر لی ہے اور غفلت و ست کوشی کے ترک کرنے پر آمادہ نہیں ۔ اس طرح وہ خود تو ذلیل ہوئے ہی ہیں لیکن انہوں نے اپنی بے حسی کی وجہ سے ہادی برحق کے دین کو بھی بدنام کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

پر اس قوم غافل کی غفلت وہی ہے تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے ملے خاک میں پر رعونت وہی ہے ہوئی صبح اور خواب ِ راحت وہی ہے نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ

عشق رسول

حالی نے زمانہ جاہلیت میں عربوں کی بے مروّتی ، ذرا ذرا سی بات پر سالہا سال تک ایک دوسرے کا خون بہانا، غلاموں اور عورتوں پر غیر انسانی ظلم و ستم اور بداخلاقی و بت پرستی کی حالت کو نہایت مو ثر انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کے بعد اس دور کا ذکر ہے جب آفتاب ِ اسلام فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا اور اس کی نورانی کرنوں نے جہالت اور گمراہی کے اندھیروں سے روئے اسلام کو پاک کیا۔ اس دور کا ذکر حالی نے بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے۔ جناب رسالت مآب کی شان میں جو چند بند حالی نے کہے ہیں ان میں عشق نبی کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے جہاں کہیں اس موضوع پر لکھا ہے قلم توڑ دیاہے۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ

خطا کا ر سے درگزر کرنے والا بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا قبائل کو شیر و شکر کرنے والا اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

مسلمانوں کی مذہب سے روگردانی

مسلمان کا جاہ و جلال اور عزت و حرمت اسلامی تعلیمات پر عمل پیراءہونے کی وجہ سے تھی لیکن مسلمانوں نے مذہب سے روگردانی اختیار کی اور عیش و عشرت میں پڑ کر اپنے فرائض سے چشم پوشی کرنے لگے تو ان کی تمام شان و شوکت اور عظمت و برتری خاک میں مل گئی اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ وہ محض نام کے مسلمان رہ گئے

وگرنہ ہماری رگوں میں لہومیں ہمارے ارادوں میں اور جستجو میں دلوں میں زبانوں میں اور گفتگو میں طبیعت میں فطرت میں عادت میں خو میں نہیں کوئی ذرہ نجابت کا باقی اگر ہو کسی میں تو ہے اتفاقی

گمراہی سے بچنے کی تلقین

مسدس حالی میں جہاں پر قومی زبوں حالی کے اور اسباب کی نشاندہی کی گئی ہے۔ وہاں پر اسلام کے بنیادی اصولوں سے روگردانی ، بے راہ روی اور گمراہی سے بچنے کی بھی تلقین نظر آتی ہے۔ مولانا نے مسلمان قوم پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون اور ضابطہ حیات پر عمل کرتے ہوئے سرخرو ہو سکتے ہیں ۔وہ مسلمانوں کو توحید کا دامن تھامے رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ ان سے نہ صرف ایمان و یقین میں پختگی آتی ہے بلکہ جعلی پیروں، درویشوں سے آزاد ہو کر انسان بغیر کسی سہارے کے ذات واحد سے ہم کلام ہو جاتا ہے۔ اس طرح نہ صرف وہ بہت سی معاشرتی اور سماجی برائیوں اور فضولیات سے بچ جاتا ہے بلکہ اسلام کے بتائے ہوئے رہنما اصولوں کی روشنی میں اپنا حال و مستقبل درست کر سکتا ہے۔ بلکہ دونوں جہانوں میں کامیابی اس کا مقدر بن سکتی ہے۔ مولانا تمام خرابیوں کی جڑ مذہب کے بنیادی اصولوں سے ناو اقفیت کو قرار دیتے ہیں اور اس کا حل تو حید پر عمل پیرا ہونے میں نکالتے ہیں۔

کہ ہے ذاتِ واحد عبادت کے لائق زباں اور دل کی شہادت کے لائق اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لائق اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق لگائو تو لو اس سے اپنی لگاو جھکائو تو سر اس کے آگے جھکاو

خواب غفلت سے بیداری کی تلقین

مسدس حالی میں مسلمان قوم کو غفلت سے بیدار کرنے اور غفلت میں پڑی ہوئی اس قوم کی حالت کا بڑا ہی درد انگیز نقشہ پیش کیا ہے۔ کہ مسلمان قوم خرگوش کی نیند سو رہی ہے۔ جبکہ اہل ِ یورپ اُن کی اس غفلت کا پورا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جس کو اپنی موجودہ پستی کا احسا س ہو۔ حالی مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ ایسی غفلت کی حالت میں کسی کو بھی جائے پناہ نہیں ملے گی۔

بچو گے نہ تم اور نہ ساتھی تمہارے

 اگر نائو ڈوبی تو ڈوبیں گے سارے

مولانا غفلت میں گرے ہوئے مسلمانوں کا ایسی باریک بینی سے نقشہ کھینچا ہے کہ ہر شخص کو آئےنے میں اپنا عکس واضح دکھائی دیتا ہے۔ یہ خواب غفلت صرف اس دور ہی میں نہیں تھی۔ بلکہ آجکے مسلمان قوم کی حالت کچھ اس دور کے مقابلے میں زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اُس وقت انگریزوں نے اس ملک و قوم کی قسمت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے رکھی تھی اور آج اس کو یہاں آنے کی زحمت گوارا کرنے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی۔ بلکہ اپنے ممالک میں ہی بیٹھے بٹھائے ری موٹ کنٹرول کے ذریعے اپنے گماشتوں اور پٹھوئوں کی مدد سے پوری قوم پر حکومت کر رہے ہیں۔ بر صغیر تک ہی کیا محدود بلکہ پوری امت مسلمہ ان کے جال میں پھنس چکی ہے۔ خواب غفلت کی یہ انتہا ہے کہ مسلمان ، مسلمان کے ساتھ دست گریباں ہیں اور اس کو حق و باطل کی جنگ سمجھتے ہیں۔ خلیج کا بحران ہو کہ مسئلہ افغانستان ، کشمیر ہو کہ فلسطین ، بوسنیا ہو کہ لیبیا، عراق ہو کہ چیچنیا، مسلمان قوم کی حالت آج بھی دور حالی سے مختلف نظر نہیں آتی ۔ دوسری طرف تمام مسلمان قوم محو خواب ہے۔ چشم دید واقعات پر چشم پوشی اس کا وطیرہ بن گیا ہے اور حالت یہ ہے کہ احساس زیاں تک نہیں ہے۔ مولانا نے قوم کی اس غفلت کی طرف صرف یہ نہیں کہ اشارہ کیا ہے بلکہ اس کو بیدار کرنے کی بھی سعی کی ہے۔

کوئی ان سے پوچھے کہ اے ہو ش والو

کس امید پر تم کھڑے ہنس رہے ہو

مسدس حالی میں قوم کی ان ساری خامیوں اور خرابیوں کا ہی ذکر ہے۔ اگرچہ پہلا حصہ ایسے دل شکن اشعار پر ختم ہوتا ہے کہ انسان کی آس ہی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن شاعر کو خود بھی اس کا احساس ہوتا ہے۔ امید کو بڑھاتا ہے اور ضمیمہ کی صورت میں ٦٢١ اشعار کا اضافہ کرتا ہے۔ ضمیمہ کی ابتداء میں امید سے ایسے پر جوش انداز میں خطاب ہے کہ مایوسی کے سارے بادل چھٹ جاتے ہیں۔

بس اے ناامیدی نہ یوں دل جلا تو جھلک اے امید اپنی آخر دکھا تو ذرا ناامیدوں کی ڈھارس بندھا تو فسردہ دلوں کے دل آکر بڑھا تو ترے دم سے مردوں میں جانیں پڑی ہیں جلی کھیتیاں تو نے سرسبز کی ہیں

مجموعی جائزہ

مولانا حالی نے اس نظم میں انسانیت کے نام جو خود اعتمادی ، مستقل مزاجی اور اپنی مدد آپ کے تحت زندگی میں کامیابی ملک و قوم ، معاشرہ اور سوسائٹی کے لئے بہتری اور خوشحالی کے جو فکری پہلو اور راہنما اصول بتائے وہ بے مثال ہی نہیں بے نظیر بھی ہیں ۔ دنیا کی شاید ہی کسی شاعری یا صنف سخن نے کسی ملک و قوم کے لئے ایسا لافانی فلسفہ حیات پیش کیا ہو۔ مولانا حالی کی اس نظم نے مسلمانوں میں انقلاب کا عزم بپا کر دیا۔ مسلمان قوم کو بیدار کر دیا۔اسی انقلاب اور بیداری کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کے نقشے پر ایک علیحدہ آزاد اور خود مختار ریاست دیکھی جا سکتی ہے۔

 بقول انور سدید:

” حالی کی مسدس اردو کی مقصدی شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس طویل نظم میں حالی نے قوم کی دکھتی ہوئی رگ کو ایک ماہر نباض کی طرح پکڑا ہے۔ اور موثر انداز میں شعر کا روپ دے دیا ہے۔ “

بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی:

” یہ نظم دکھے ہوئے دل کی پکار ہے۔ ایک سچے مسلمان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی آواز ہے۔ ایک مخلص انسان کی آنکھوں سے ٹپکا ہوا آنسو ہے۔ ایک مصلح کا پیام ہے ایک رہنما کا نعرہ ہے۔


متعلقہ تحریریں:

ن م راشد – ایک تعارف

ہائیکو نگاری کے تسلسل میں ‘ ٹھنڈاسورج’

حالی کے نظم فکری کا جائزہ

مسدس حالی

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا