• صارفین کی تعداد :
  • 1129
  • 1/30/2011
  • تاريخ :

مصر کے حالات اور امریکہ کا دوغلہ پن

مصر کے حالات

مصر کے حالات سے متعلق امریکی حکام کے ردعمل سے ان حکام کے دوغلے پن کی عکاسی ہوتی ہے ۔ تیونس میں عوامی مظاہروں اور اس ملک کے صدر زین العابدین بن علی کے سعودی عرب فرار ہونے کے بعد گزشتہ دو دنوں میں مصر کے ہزاروں شہریوں نے دارالحکومت قاہرہ اور چند دوسرے شہروں میں مظاہرے کرکے اس ملک کے ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ اور چند دوسرے یورپی ممالک نے مصری عوام کے ان مظاہروں پر اپنے ردعمل کیا اظہار کیا ہے۔ یورپی ذرائع ابلاغ جس انداز سے مصر کے حالات کو بیان کر رہے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ کے سیاسی اور تشہیراتی حلقے دہری پالیسی اختیار کرکے مصر کی صورتحال اپنے قابو میں کرنے کے درپے ہیں۔ ان حلقوں نے ایک جانب مظاہرین پر روا رکھے جانے والے تشدد کی مذمت اور مصر کی حکومت سے اصلاحات کے مطالبے کے ذریعے اپنے آپ کو مصر کے عوام کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اور دوسری جانب یہ دعوی کرتے ہوۓ ، کہ مصر کی حکومت عوام کے مطالبات پورے کرنا چاہتی ہے ، کھلے بندوں حسنی مبارک کی حمایت کی ہے۔ اس سلسلے میں اگر مصر کے حالات کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے بیانات کا جائزہ لیا جاۓ تو مصر کی صورتحال کے بارے میں امریکہ کا دوغلا پن واضح طور پر سامنے آجاتا ہے۔ روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق ہلیری کلنٹن نے ایک جانب اپنے آپ کو مصر کے مظاہرین کا حامی ظاہر کرنے کے لۓ کہا ہے کہ

ہم تمام لوگوں کے لۓ آزادی اظہار اور جلوس نکالنےکے بنیادی حق کی حمایت کرتے ہیں اور ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ مصر میں تمام فریق برداشت سے کام لیں گے اور تشدد سے اجتناب کریں گے۔ دوسری جانب ہلیری کلنٹن نے حسنی مبارک کی حکومت کی واضح الفاظ میں حمایت کرتے ہوۓ کہا ہے کہ امریکہ اس بات کا قائل ہے کہ تین عشروں سے برسراقتدار حسنی مبارک کی حکومت کو کوئي خطرہ لاحق نہیں ہے اور یہ حکومت مصری عوام کے مطالبے پورے کرنے کے راستوں کا جائزہ لے  رہی ہے۔

مصر کے حالات کے بارے میں امریکہ کے دوغلے پن کے اسباب کو سمجھنے کے لۓ کم از کم گزشتہ تین عشروں کے دوران مشرق وسطی سے متعلق امریکی پالیسیوں کا جائزہ لیا جانا بہت ضروری ہے ۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور خطے کے عوام کی جانب سے ایرانیوں کو نمونۂ عمل بناۓ جانے کا امکان اس بحث کا نقطۂ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے ۔ البتہ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہےکہ یورپ نے اسلامی انقلاب کا دائرہ دوسرے ممالک تک بڑھنے کی روک تھام اور سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین پر ضرب لگانے کے لۓ طالبان جیسے انحرافی اور القاعدہ جیسے دہشتگرد گروہوں کو پروان چڑھایا۔ اور پھر جب انہی گروہوں کی وجہ سے اس کے اپنے مفادات خطرے میں پڑ گۓ اور عرب ممالک کو انتہا پسندی کا سامنا کرنا پڑا تو یورپ نے عظیم تر مشرق وسطی کے منصوبے کے ذریعے صورتحال پر قابو پانا چاہا۔ عظیم تر مشرق وسطی کا منصوبہ امریکہ کے تحقیقاتی اداروں کے ماہرین نے تیار کیا اور امریکی حکومت نے بھی اس کی توثیق کی ۔ یہ منصوبہ مشرق وسطی خاص کر عرب ممالک میں سماجی ، ثقافتی ، سیاسی اور اقتصادی مقاصد پر مشتمل ہے۔ اس منصوبے کے مطابق جب تک مشرق وسطی میں لوگوں کو سیاسی اور اقتصادی سرگرمیوں سے دور رکھے جانے کی پالیسی جاری رہے گی اور اقتدار خاص افراد کے ہاتھوں میں رہے گا تب تک دہشتگردانہ کارروائیوں اور یورپی ممالک کی جانب غیر قانونی نقل مکانی کا سلسلہ شدت کے ساتھ جاری رہے گا۔ اسی بنا پر یورپی ممالک نے مشرق وسطی میں سیاسی و سماجی اصلاحات کی بات کی۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ اگر واقعی عرب ممالک میں حقیقی آزادی بحال ہوتی ہے تو ان ممالک کے لوگ اسلام پسند جماعتوں کو برسراقتدار لائيں گے جیسا کہ عراق، لبنان اور فلسطین میں ہوچکا ہے ۔ اس لۓ اب ایسا لگتا ہے کہ عظیم تر مشرق وسطی کا منصوبہ بنانے والے اس منصوبے میں ترامیم کے بعد ایک جانب مصر کے مظاہرین کی حمایت  کا اظہار کر رہے ہیں اور دوسری جانب مصر کی حمایت کرتے ہوۓ اس حکومت سے معمولی نوعیت کی اصلاحات کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ اس ملک میں ہونے والے مظاہروں کو ہائي جیک کرسکیں۔ مصر کی صورتحال سے متعلق امریکی وزیر خارجہ کے متضاد بیانات کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہۓ۔

بشکریہ اردو ریڈیو تہران