• صارفین کی تعداد :
  • 2203
  • 2/5/2011
  • تاريخ :

یہ مدینہ ہے (حصّہ سوّم)

جنت البقیع

یہ بقیع ہے اب ہم اس جگہ قدم رکھ رہے ہیں جہاں کبھی پیغمبر صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے قدم پڑتے تھے ۔

ہم اس جگہ کی ملکوتی فضا میں یہاں پر سونے والے شہداء اور اسکی خاک میں چھپی ہوئی تمام اموات پر درود بھیجتے ہیں اور اپنے پردئہ ذہن پر انکے ایثار کے ان حماسی لمحوں کو تجسیم کرتے ہیں کہ جنہوں نے تاریخ اسلام کو نشاط و رونق بخشی ۔

بقیع میں وارد ہوتے ہی ہم داہنی جانب دیکھتے ہیں، یہاں ایسی قبریں نظر آ رہی ہیں کہ جن میں سونے والوں کا کوئی پتہ نہیں ہے لیکن شک نہیں کہ اس جگہ آرام فرمانے والے مہاجرین اور انصار ہیں اور قدرے احتمال اس بات کا بھی ہے کہ یہ لوگ امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور کے بعد گزرے ہوں ۔

ان قبور کے بالائی حصے میں پتھروں کے حصار میں محصور چھ قبریں جن کی زیارت کو نگاہیں بیتاب ہیں ۔

4 قبریں ایک دوسرے سے ملی ہوئی جو 4 مطہر اجساد سے متعلق ہیں ۔پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت کی 4 وارستہ شخصیتیں؛ ساتھ ہی دو قبریں اور بھی ہیں ایک جناب فاطمہ بنت اسد حضرت علی علیہ السلام کی والدہ گرامی سے متعلق ہے کہ جو پیغمبر اسلامصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ماں سے کم نہ تھیں اور دوسری قبر جناب عباس پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چچا سے متعلق ہے ۔ فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی 8 سے لیکر 52 سال تک سر پرستی کی آپ کو ماں کی محبت کی چاشنی سے مانوس کرایا ، کہا جاتا ہے کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پیرہن کو آپکا کفن بنایا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے آپکو سپرد خاک کیا۔ پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چچا جناب عباس ائمہ علیھم السلام کی قبور کے ذرا آگے ہی آرام فرما رہے ہیں آپ ایک دولت مند شخص تھے آپ نے اسلام کی اپنے مال اور اپنے اثرو رثوخ سے حمایت کی اور عقبہ ثالث کے پیمان کے موقع پر آپ ہی پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ترجمان تھے۔

4 ائمہ علیھم السلام میں میں سب سے پہلی قبر امام حسن سے متعلق ہے ۔ اب ذرا جان و دل سے سنیں ! کیا علی کے آہستہ آہستہ نجوی کی آواز نہیں آ رہی ہے؟

جناب زہرا علیہا السلام کے گم شدہ مزار کی طرف ذرا غور سے دیکھیں !پا برہنہ بچے زینب حسن اور حسین اپنی ماں کی تشیع جنازہ میں آہستہ آہستہ رو رہے ہیں ۔اپنی جوتیوں کو اتار دو پا برھنہ ہو جاؤ ۔ یہ عشق کی آواز ہے ۔  ادب کا تقاضہ یہی ہے معرفت یہی چاہتی ہے ۔ یہ بقیع کا افسوس ناک منظر ملاحظہ ہو اسماء بنت عمیس پانی ڈال رہی ہیں ۔ علی غسل دیتے دیتے اچانک اپنا سر دیوار پر رکھتے ہیں ۔ آسمان کانپ اٹھتا ہے، زمین و آسمان کے ذرات بے قرار ہو کر فریاد کرنے لگتے ہیں،علی نے اپنے سر سے عمامہ اتار دیا ہے اور پا برہنہ ہیں کیا آپ علی کی اقتدا نہیں کرنا چاہتے ؟!

یہ امام حسن کا مزار ہے غریب اور مدینہ و کوفہ کی مظلوم شخصیت، جوانان بہشت کے سردار ، اپنے بابا کا صفین و نہروان کے معرکوں میں توانمند بازو ذرا دیکھیں تو سہی ! بھیا حسین اور عباس پا برہنہ آپکی تشیع میں آہستہ آہستہ چل رہے ہیں ساتھ میں زینب و ام کلثوم بھی ہیں کیا آپ نہیں چاہتے کہ زینب کی طرح بقیع میں داخل ہوں؟!

پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آپ سے یوں محبت کرتے تھے کہ لوگ پیغمبرصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی توجہ کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے خود امام حسن کو واسطہ بناتے تھے ؛ مرقوم ہے کہ ابو سفیان اپنی عھد شکنی کی عذر خواہی کے لئے مدینہ آیا تھا جب عفو و در گزر سے نامید ہو گیا تو اس نے امام حسن کو اپنا وسیلہ بنانا چاہا ۔ جناب فاطمہ نے اس کی اجازت نہ دی اور فرمایا : میرا بیٹا ابھی بہت چھوٹا ہے ۔

اسی طرح تاریخی منابع میں لکھا ہے کسی زمانے میں ایک خطا کار شخص نے خطا کی بنا پر اپنے آپ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے مخفی کر رکھا تھا ۔ ایک دن امام حسن کو مدینہ کی گلیوں میں پا لیا تو آپ کو اٹھایا اور اپنے کاندھوں پر اٹھا کر رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ یہ منظر دیکھ کر پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہو گئی اور آپنے اس کی خطا کو در گزر کیا ۔

بشکریہ الحج ڈاٹ او آر جی


متعلقہ تحریریں :

امریکي اہداف

مغربی دنیا کے دلفریب نعر ے

امریکہ کے مذموم مقاصد

تہذیب و ثقافت  سے کیا مراد ہے ؟

تہذیب و ثقافت ( دوسرا حصہ )