• صارفین کی تعداد :
  • 2290
  • 1/22/2011
  • تاريخ :

گھریلو کاموں کو انجام دینا  واجب یا مستحب

خاتون

   گھر کے کام کاج کرنا اور گھر کی چاردیواری میں محنت کرنا تاکہ اپنے گھر کو صاف ستھرا اور مرتب رکھ سکیں ، ایک بہت ہی پسندیدہ اور مستحب  امر ہے ۔  یہ کام عورتوں یا مردوں دونوں میں کسی خاص سے منسوب نہیں ۔ یعنی گھریلو کام کاج ہر فرد کی ذمہ داری ہوتی ہے اور ضروری نہیں  کہ صرف عورتیں ہی گھر کے سارے کام کاج کرتی رہیں ۔

مہمان نوازی ہر مسلمان کے لیۓ ایک وظیفے کی طرح ہے اور اس میں بھی صرف عورتوں کی  ذمہ داری نہیں بنتی کہ مہمان نوازی کریں ۔  بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری مرد اور عورت دونوں پر یکساں عائد ہوتی ہے ۔  اگر اسلامی نقظہ نظر سے دیکھا جاۓ تو اسلام  میں بچے کو باپ سے نسبت دی گئ ہے  اور اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے میاں بیوی میں نوبت طلاق تک پہنچ جاۓ  تو بچے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری باپ کے ذمہ ہوتی ہے اور صرف شیرخواری کی حالت میں ماں کی ذمہ داری بنتی ہے اور اس صورت میں بھی عورت کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ بچے کو پلانے والے دودھ کا خرچہ طلب کر لے ۔  گھر کے اندر ماں کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ بچے کی دیکھ بھال کے کاموں کا خرچہ  اپنے شوہر سے مانگ لے  ۔

اس لیۓ بہت سے کام ،جن کو ہم گھر کے کام کاج کہہ کر پکارتے ہیں دراصل باپ کا وظیفہ ہوتے ہیں  اور اسلام نے عورت کو ان  گھریلو کاموں کا مسئول نہیں بنایا ہے ۔

اللہ تعالی  کے نزدیک ایک سست اور کاہل انسان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ۔ حضرت امام کاظم علیہ السلام کا قول ہے :

ان الله عزوجل لیبغض عبدالنوام و ان الله لیبغض عبد الفارغ (وسائل الشیعه 12/37)

ترجمہ : خداۓ بزرگ پرخواب آدمی سے بیزار ہے اور بیکار سے متنفر ۔

اللہ تعالی نے عورت کی فطرت میں گھر کے کام کاج  کرنے اور  پیار محبت سے بچوں کی دیکھ بھال  کی لگن  پیدا  کر رکھی ہے ۔  یہی وجہ ہے دنیا کے کسی بھی خطے میں چلے جائیں، تاریخ کے کسی بھی اوراق کا مطالعہ کریں تو عورتوں میں گھریلو کام کرنے کا جذبہ  ہمیشہ زندہ رہا ہے  اور وہ اپنی مرضی اور شوق سے گھر کے سارے کام کرتی ہیں ۔

ترتیب و پیشکش : سید اسداللہ ارسلان


متعلقہ تحریریں:

مولائے کائنات (ع) کي آرزو

خود شناسى کے اصول

مذھبى تعليم کى تحقيق

عيب جو گروہ

 اپنے سے بے خبرى