• صارفین کی تعداد :
  • 2698
  • 1/22/2011
  • تاريخ :

 مولانا حسرت موہانی کی آپ بیتی

مولانا حسرت موہانی

   ”مشاہدات زنداں“ مولانا حسرت موہانی کی آپ بیتی ہے جو ”قید فرنگ‘’ کے نام سے مشہور ہے ۔ اردو کی خود نوشت مختصر سوانح عمریوں میں غالباً یہ سب سے زیادہ مقبول آپ بیتی ہے ، کیونکہ اس میں اردو کے ایک مشہور شاعر، سیاست دان اور صحافی نے اپنی ایک سالہ اسیری کی روداد بیان کی ہے ۔ اپنے رسالہ ماہنامہ ”اردوئے معلی“ کے شمارہ دسمبر 1909 میں اس آپ بیتی کی پہلی قسط شائع کرتے ہوئے مولانا حسرت موہانی نے اپنے نوٹ میں وضاحت کی کہ ”23جون 1908 سے 19جون 1909 تک، بزمان قید فرنگ، جو کچھ راقم الحروف نے دیکھا یا سنا، اس کے شائع کرنے کا، بہ بوجوہ، چنددرچند، ارادہ نہ تھا لیکن بعض احباب کے اصرار سے مجبور ہوکر اب یہ قصد کرلیا گیا ہے کہ مندرجہ بالا عنوان کے کم از کم دلچسپ واقعات اور حالات ہر ماہ درج رسالہ ہوا کریں۔“ حسرت موہانی کی اسیری کی یہ داستان ”اردوئے معلی“ کے شمارہ جنوری 1910 تک مسلسل شائع ہوتی رہی اور یہ تیرہ قسطوں میں مکمل ہوئی۔

عتیق صدیقی نے اپنی کتاب ”حسر ت موہانی: قید فرنگ میں“ جو انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی کے زیراہتمام 1982میں شائع ہوئی…. میں بتایا ہے کہ رسالہ اردوئے معلی میں ”مشاہدات زنداں“ کی اشاعت کے بعد اس کا ایک ایڈیشن غالباً 1918 میں کتابی شکل میں بھی شائع ہوا تھا لیکن وہ نسخہ انھیں دستیاب نہ ہوسکا، البتہ حسرت موہانی کے انتقال کے بعد نیاز فتح پوری نے اسے ماہنامہ ”نگار“ لکھنوٴ کے شمارہ جون 1952 میں پھر شائع کیا اور وہیں سے اخذ کرکے ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے کراچی سے 1976میں شائع ہونے والے اپنے ماہنامہ ”نگار“کے حسرت نمبر میں چھاپا۔ عتیق صدیقی نے بھی اپنی کتاب ”حسرت موہانی:قید فرنگ میں“ میں ”مشاہدات زنداں“کو اردوئے معلیٰ کی تیرہ اشاعتوں سے نقل کرکے 56 صفحات میں سمیٹ لیا ہے ۔ انھوں نے بتایا ہے کہ مشاہدات زنداں….. حسرت کی پہلی ”جیل یاترا“ کے تجربات کی ہیبت ناک داستان ہے جو زبان و بیان کے اعتبار سے ادبی اہمیت کی اور مواد کے اعتبار سے تاریخی نوعیت کی ہے لیکن یہ افسوس ناک ہے کہ عالمی زندانی ادب میں یا کم از کم ہندوستانی زندانی ادب میں اسے وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جس کی وہ مستحق ہے ۔ حسرت نے اپنی قیدوبندکی زندگی کا ایک سال جس حال میں بسر کیا تھا اور اس کے دوران ان سے جو وحشیانہ سلوک کیا گیا تھا، اس کو حسرت نے اگرچہ کچھ حد تک تفصیل کے ساتھ ”مشاہدات زنداں“ میں قلم بند کیا ہے لیکن ان کے انداز بیان کا یہ پہلو خصوصیت سے قابل توجہ ہے کہ اس میں کسی جگہ بھی بغض و عناد کا شائبہ نظر نہیں آتا۔“

مولانا حسرت موہانی نے آغاز داستان میں خود بتایا ہے کہ انگریزی حکومت نے انھیں 23 جون 1908 کو اپنے رسالہ ”اردوئے معلی“ میں ایک مضمون شائع کرنے پر بغاوت کے جرم میں گرفتار کیا اور مقدمہ چلا کر دو سال قید با مشقت اور پچاس روپئے جرمانہ کی سزا سنائی۔ اپیل کرنے پر ان کی سزا ایک سال رہ گئی اور جرمانہ کی رقم ان کے بھائی نے ادا کردی۔ گرفتاری کے وقت ان کی شیرخوار بیٹی نعیمہ بے حد علیل تھی اور گھر پر والدہ نعیمہ اور ایک خادمہ کے سوا اور کوئی موجود نہ تھا، لیکن اس موقع پر ان کی اہلیہ نشاط النساء نے بے حد حوصلہ مندی، استقامت اورجرأت کا مظاہرہ کیا اور گرفتاری کے اگلے روز ہی سپرنٹنڈنٹ جیل کے ذریعے سے انھیں ایک خط لکھا جس میں حسرت موہانی کا یہ کہہ کر حوصلہ بڑھایا کہ:”تم پر جو افتاد پڑی ہے ، اسے مردانہ وار برداشت کرو۔ میرا یا گھر کا مطلق خیال نہ کرنا۔ خبردار، تم سے کسی قسم کی کمزوری کا اظہار نہ ہو۔“

مولانا حسرت موہانی نے ”مشاہدات زنداں“ میں جیل کی زندگی کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ اس سے قیدیوں پر ہونے والے مظالم اور ان کی بے بسی کی المناک تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”حوالات میں داخل ہونے پر گرفتار ان زنداں کو سب سے زیادہ افسوس ناک نظارہ حوالاتیوں کی حالت زار کا نظر آتا ہے کہ ادنیٰ ملازمین جیل، ناجائز حصول زر کی غرض سے ان کی تذلیل کا کوئی وقیقہ اٹھا نہیں رکھتے ۔ بہت سے لوگ ان میں ناکردہ گناہ پولیس کا شکار اور پہلے ہی سے مظلوم ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ سنگ دلی کا یہ قابل نفرین برتاوٴ دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگوں پر بلا ثبوت کافی، محض اس لیے مقدمے قائم تھے کہ انھیں سزا نہ بھی ہو تو کم از کم حوالات میں رہ کر ان کی آبرو تو خاک میں مل جائے گی۔

خود حسرت موہانی کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ ”تقریباً چالیس روز کی کش مکش اور بیکار طوالت کے بعد آخر کار مقدمہ کا وہی فیصلہ ہوا جو اس قسم کے مقدمات میں ہمیشہ ہوا کرتا ہے ، یعنی 4 اگست 1908 سے قید سخت کا آغاز اس طور پر ہوا کہ کچہری سے جیل واپس پہنچتے ہی ایک لنگوٹ، جانگیا اور ایک کرتا، ٹوپی، پہننے کے لیے ایک ٹکڑا ٹاٹ اور ایک کمبل بچھانے اوڑھنے کے لیے اور ایک قدح آہنی بڑا اور ایک چھوٹا، جملہ ضروریات کو رفع کرنے کی غرض سے مرحمت ہوا۔ ان چند چیزوں کے سوا قیدیوں کو اور کوئی شے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔“

قید کے پہلے روز سے ہی حسرت موہانی کو چکی کی مشقت کا سامنا کرنا پڑا جس کی طرف انھوں نے اپنے مشہور شعر میں یوں اشارہ کیا ہے :

ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

انھیں روزانہ ایک من گندم پیسنے کی اذیت ناک سزا دی گئی جو یوں تو ایک دو ماہ کے بعد ختم ہوجانی چاہیے تھی لیکن ایک سیاسی قیدی کو زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچانے کے لیے جیل کے حکام نے ، بالائی اشارے پر پورے سال ان سے چکی کی مشقت کرائی۔ حسرت موہانی نے اْف تک نہ کی اور ہر روز صبح سے شام تک، حتیٰ کہ رمضان المبارک کے مہینے میں بھی وہ ایک من گندم جیل کی بھاری بھر کم چکی سے ، اپنے ہاتھوں پیستے رہے ، حالانکہ پڑھے لکھے قیدیوں سے نسبتاً ہلکی مشقت بھی لی جاتی تھی۔ مثلاً ان سے لکھنے پڑھنے کی کوئی خدمت لینا اس زمانے کا عام معمول تھا۔

مولانا حسرت موہانی نے جیل کے اندر، قیدیوں کو فراہم کیے جانے والے گھٹیا لباس، ان کی مضر صحت خوراک، ان کی تکلیف دہ جائے رہائش اور ان کے روزمرہ کے قابل رحم معمولات کا جو نقشہ کھینچا ہے ، اس سے جیل کی زندگی، جیتے جی، جہنم کا ایک نمونہ نظر آتی ہے ۔ البتہ اس آپ بیتی کا سب سے جاندار حصہ وہ ہے جس میں مولانا حسرت موہانی نے اپنے جیل کے قیدی ساتھیوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ ان میں سیاسی زعما، اخلاقی مجرم، جیل کے نچلے اور بالائی عملے کے اراکین اور جیلوں کا معائنہ کرنے والے سرکاری حکام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں بے حد دلچسپ کردار بھی ہیں۔ جلاد صفت جیلر اور ڈپٹی جیلر بھی اور ہمدرد قیدی، سیاست دان اور معائنہ کرنے والے بعض اعلیٰ حکام بھی۔ علاوہ ازیں مولانا نے عام قیدیوں اور گورے یایورشین قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے دوہرے امتیازی سلوک کی روداد بھی بیان کی ہے اور عام ملکی قیدیوں کے ساتھ ناروابرتاوٴ اور گوروں کو ہر قسم کی سہولیات بہم پہنچانے کے فرق کو واضح کیا ہے ۔ اردو کے زندانی ادب میں حسرت موہانی کی یہ خودنوشت سوانح عمری، مختصر ہونے کے باوجود، جیلوں کے بارے میں گہرے اور سچے مشاہدات پیش کرنے کی وجہ سے ہمیشہ یادگار رہے گا۔

 

بشکریہ ”مخزن“ لاہور، جلد 6- شمارہ 12


متعلقہ تحریریں:

مسدس حالی

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

کنار راوی

غالب ایک نئی آواز

بانی پاکستان کا یوم پیدائش