• صارفین کی تعداد :
  • 1913
  • 1/15/2011
  • تاريخ :

ہائیکو نگاری کے تسلسل میں ‘ ٹھنڈاسورج’

اردو کے حروف تهجی اور اعداد

  اردوادب کے شعری ادب میں بیشتر اصناف سخن مشرق وسطیٰ اور مغرب سے ہی آئی ہیں لیکن ان کے مقبول اور معتبر ہونے میں طویل عرصہ لگا جب کہ جاپان سے درآمد ہونے والی صنف سخن ہائیکو نے بیس پچیس برس کی قلیل مدت میں برصغیر پاک و ہند میں جو حیرت انگیز مقبولیت حاصل کی ہے وہ اردو اور اہل اردو کے لیے باعث فخر ہے ۔

گزشتہ تقریباً دو دہائیوں میں صرف ہائیکو  پر مشتمل درجنوں شعری مجموعے منظر عام پرآ چکے ہیں ۔ متعدد ادبی رسائل میں ہائیکو سے متعلق مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ ملک کے اہم شہروں کراچی ‘اسلام آباد اور کوئٹہ و غیرہ میں ہائیکو مشاعرے بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں ۔ خصوصاً کراچی میں جاپان قونصل خانہ کے تحت 1982ء سے سالانہ بنیاد پر تسلسل کے ساتھ ہائیکو مشاعرے کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں اردو کے سینئر شعرا کے علاوہ نئے شعراء بھی کافی تعداد میں پابندی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں ۔ آج یہ بات نہایت تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ہائیکو اب اردو ادب کے قارئین کے لیے نہ صرف اجنبی صنف سخن نہیں رہی ہے بلکہ اصناف شعری میں گراں بہا اضافے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے ۔

جس طرح شاعری کی دیگر اصناف غزل‘ قطعہ‘ رباعی کے علاوہ مغرب سے آنے و الی اصناف‘ آزادنظم‘ نظم معریٰ‘  سانیٹ اور ترائیلے تک اپنی مخصوص ہیئت کی وجہ سے اپنی جداگانہ شناخت رکھتی ہیں ۔ اسی طرح ہائیکو بھی بشمول دیگر فنّی پابندی کے اپنی مخصوص ہئیت (FORM) کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے ۔ ہائیکو کا پہلا اور تیسرا مصرع مساوی الاوزان جب کہ دوسرے مصرعے میں ایک رکن زائد ہوتا ہے ۔ اساتذہ فن اور بیشتر نقادوں نے مندرجہ ذیل ارکان کو ہائیکو کے اصل وزن کے انتہائی قریب ہونے کے باعث صحیح وزن قرار دیا ہے جسے ارکان ‘ اعداد اور اردو مصرعوں کی وضاحت کے ساتھ دیا جا رہا ہے :۔

فع لن۔ فع لن۔ فع = 5

آ وا ۔ رہ پت۔ تے

فع لن۔ فع لن۔ فع لن۔ فع = 7

تم نف۔ رت سے ۔ مت دے ۔ کھو

فع لن۔ فع لن۔ فع = 5

کل یہ۔ کو نپل۔ تھے

برصغیر پاک و ہندکے تقریباً سبھی شعراء اس وزن کی پابندی کے ساتھ ہائیکو لکھ رہے ہیں ۔ یہاں یہ امرقابل ذکرہے کہ اس پابندی کو پہلے پہل جاپان قونصل خانہ کراچی کے سالانہ مشاعرے منعقدہ1983ء میں ہدایت کی بموجب ملحوظ رکھا گیا تھا۔ اس مشاعرے میں راقم نے جوہائیکو پیش کیے تھے ان میں سے دوہائیکو یہاں دینابے محل نہ ہو گا:۔

بازآؤں گاجا

مجھ کو توپھر سمجھانا

اس سے مل کرآ

بارش کا یہ ساز

رہ رہ کر یاد آتی ہے

گھنگرو کی آواز

بعض نقادوں نے پروفیسر محمد امین کو ان کے ہائیکو مجموعے مطبوعہ1981ء (طبع اول)1982ء (طبع دوم) کی بنیاد پر انہیں پاکستان کا پہلا ہائیکو نگار قرار دیا ہے جب کہ ان کے ہائیکو کے تینوں مصرعے مساوی الاوزان ہیں اس لیے یہ ہائیکو کی بنیادی شرط یعنی ہیئت کی پابندی پر پورے نہیں اترتے چنانچہ انہیں مختصر نظمیں ہی شمار کیا جانا چاہئے ۔ اس واضح فرق کے بارے میں مصنف نے اپنے ہائیکو کے دیباچے میں خود تحریر کیا ہے :

’’اردوہائیکو اور بالخصوص میرے ہائیکو جاپانی ہائیکو سے مختلف ہیں ۔ ۔ ۔ میں نے چونکہ جاپانی ہائیکو سے متاثر ہو کر ہائیکو لکھنے شروع کیے اور جاپانی ہائیکو کی خصوصیات کو ملحوظ رکھا ہے اس لیے میں اسے ہائیکو کا نام دیناہی مناسب سمجھتا ہوں ۔ ‘‘

مساوی الاوزان مصرعوں پرمشتمل مختصرنظمیں قیام پاکستان سے قبل بھی لکھی جا رہی تھیں ۔ مخمورجالندھری کی مختصر نظمیں کا مجموعہ جواسی نام سے کتابی صورت میں 1946ء میں شائع ہوا تھا۔ مذکو رہ مجموعے سے تین نظمیں دی جا رہی ہیں تاکہ میرے مؤقف کی تائید ہو سکے :

توکیاجانے تیرے سرپر

وقت کا چرخاگھوں گھوں کرتا

کات رہا ہے بال سفید

گزرا تھا ابھی کو ن سڑک سے کہ ابھی تک

ہاتھوں میں ہے بنئے کے اسی طرح ترازو

درزی کی سوئی پہلے جہاں تھی ہے وہیں پر

اک اور ناؤکنارے پہ بھرکے ڈوب گئی

امیدتھی کہ سمندرکی موج کف آلود

اٹھی‘بلند ہوئی اور پھر سے ڈوب گئی

ہائیکو کی ہیئت کے سلسلے میں بات یقیناخاصی تفصیل میں چلی گئی ہے لیکن یہ بنیادی مسئلہ تھا جس کی وضاحت مثالوں کے ساتھ ضروری تھی۔

پانچ سات پانچ کی پابندی کے ساتھ سینئرشعراء کے علاوہ جن نئے شعراء اور شاعرات نے کامیاب ہائیکو لکھے ہیں ان میں مہتاب الدین مہتاب‘لیاقت علی عاصم‘آفتاب مضطر‘ شبہ طراز‘ثروت سلطانہ ثروت‘اور رونق حیات کے نام قابل ذکر ہیں ۔ مہتاب اور عاصم کے علاوہ بقیہ شعراء کے ہائیکو کے مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ پچھلے چندبرسوں میں ہائیکو نگاروں کی اس کہکشاں میں خاور چودھری کے نام کا خوشگواراضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے مساوی الاوزان ہائیکو بھی لکھے ہیں او رہیئت کی پابندی کے ساتھ بھی لیکن میرے نزدیک ہیئت کی پابندی کے ساتھ لکھے گئے ہائیکو ہی ان کی پہچان ہیں جب کہ انہوں نے ماہیے میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔

ادبی مراکزسے دور ہونے کے باعث انہیں ہائیکو نگاروں میں کم ہی شمارکیا گیا ہے اور ان کے کلام کی خاطرخواہ اشاعت بھی نہیں ہو سکی ہے جب کہ انہوں نے نہ صرف ہیئت کی پابندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے کامیاب ہائیکو لکھے ہیں بلکہ ہائیکو کے مزاج اور مضامین کو نہایت خوبصورتی سے برتا ہے ۔ جاپانی ہائیکو میں قوافی کا اہتمام نہیں کیاجا تا لیکن اردوکے کئی شعراء قوافی کی پابندی کے ساتھ بھی کہہ رہے ہیں اور پابندی کے بغیربھی۔ خاورؔکے بیشترہائیکو کے پہلے اور تیسرے مصرعے ہم قافیہ نہیں ہیں ۔ خاورؔنے مساوی الاوزان مصرعوں پرمشتمل ہائیکو بھی لکھے ہیں لیکن اصل وزن میں ہی لکھے گئے ہائیکو ان کی پہچان ہیں ۔

مثلاً

قریہ قریہ دھوپ

میٹھے جھرنوں کا پانی

قصّے بُنتا ہے !

کالے موسم میں

وعدوں کی زنجیرکٹے

مشکل ہوآسان

رفتہ فرداکیا

حال میں رہناسیکھ لیا

ہم دیوانوں نے

صحراصحرایاد

میری آنکھوں میں اتری

اشکو ں کی بارات

جاپانی ہائیکو میں موضوعات اور مضامین کے لحاظ سے موسم‘حشرات الارض ‘ اور مظاہر فطرت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ خاور  نے بھی اپنے انداز میں انہیں نہایت خوبی کے ساتھ اپنے ہائیکو کا موضوع بنایا ہے ۔

جھینگر‘جگنو‘رات

جذبوں کی سرگوشی سن

دیپک راگ نہ چھیڑ

زخمی زخمی خواب

بادل‘برکھا‘ساون رُت

تنہائی کی آگ

کُہرے کی چادر

پربت غم کے ٹوٹ پڑے

شعلے اُٹھتے ہیں !

خودسے ڈرجاؤں

چاندکی روشن راتوں میں

سایہ ساتھ چلے

خاور کے بعض ہائیکو جاپانی صنف سخن ‘‘سِن ریو‘‘ پرپورے اترتے ہیں :۔

سگرٹ‘بیڑی‘پان

اب توایساکچھ بھی نہیں

شاعرکی پہچان!

رازچھپائے کو ن

دوست سپولے بن بیٹھے

ہاتھ ملائے کو ن

خاور نے اس صنف کو غالباً شعری ذائقہ بدلنے کے لیے استعمال کیا ہے لیکن ان کا اصل میدان ہائیکو ہے اور ‘‘ٹھنڈاسورج‘‘ ہائیکو کا ایک اہم مجموعہ ہے میں اسے ہائیکو کی سبدِ گل میں ایک تازہ پھول کا اضافہ سمجھتا ہوں جو اہل نقدو نظرکی توجہّ بھی حاصل کرے گا اور قارئین کی داد و تحسین کا مستحق ہی نہیں حق داربھی ٹھہرے گا۔ ‘‘

محسن بھوپالی

( بشکریہ: ماہنامہ ادب لطیف)


متعلقہ تحریریں:

کنار راوی

غالب ایک نئی آواز

بانی پاکستان کا یوم پیدائش

اقبال کے کلام میں کربلا

اقبال کے کلام میں کربلا (حصّہ دوّم)