• صارفین کی تعداد :
  • 1117
  • 12/19/2010
  • تاريخ :

یومِ عاشورہ پر کرفیو کیوں؟

عاشوره

10 محرم الحرام کوواقعۂ کربلا کی مناسبت سے شہدائے کربلا کے تئیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کی غرض سے عزاداری کے جلوس دُنیا بھر میںجوق درجوق نکلتے ہیں ۔   یہ روایت زمانۂ قدیم سے جاری ہے ۔اِن ماتمی جلوسوں میں عقیدت مند حق وانصاف کی خاطرامامِ عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ (ع) کےاہلِ بیت اور جانثاروں کی فقیدالمثال قربانیاں یاد کرتے ہیںاوراُن پر اپنی بے لوث محبتیں نچھاورکرتے ہیں ۔

یہ ماتمی جلوس خصوصیت کے ساتھ فقۂ جعفریہ سے منسلک شیعہ مسلمانوں کے لئے مذہبی اعتبار سے ایک اہم عبادت کا درجہ رکھتے ہیں۔

چنانچہ عشرۂ محرم کے دوران اُن کا مذہبی جوش  و خروش روایتاً قابلِ دید ہوتاہے۔ البتہ عاشورۂ منانا صرف اِنہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ سُنّی مسلمان بھی ذوق وشوق سے 10محرم کے احترام میں اپنے شیعہ بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور اُن کے رنج وغم میں برابر کے شریک رہتے ہیں۔ اس سے دونوں مسالک کے ماننے والوں کے درمیان اخوت ومحبت کا رشتہ ہی تروتازہ نہیں ہوتا بلکہ ملّی اتحاد کا روح پرور نظارہ بھی جنم لیتاہے ۔

کشمیر کے سُنّی مسلم اس معاملے میں بڑے حساس اور کشادہ دل واقع ہوئے ہیں۔ چنانچہ محرم کے دوران وہ شادی بیاہ اور دوسری مسرت آگیں تقریبات کا اہتمام کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔

ان تمام حقائق کی اَن دیکھی کرکے اربابِ حل وعقدعزاداری جلوسوں پر شرپسندوں کے ممکنہ حملے کو روکنے کے بہانے سالہاسال سے عین یومِ عاشورہ کے روز سرینگر شہر میں بیک جنبش قلم کرفیو نافذ کرتی آئی ہے ۔مذہبی طور متبرک مانے جانے والے اس دن پر کرفیو لگانے سے یہ تاثر پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتاہے کہ اربابِ اقتدار زمینی حقائق سے یا تو نابلدہیںیا تعصب وتنگ نظری کی عینک پہنے ہوئے ہیں۔ ورنہ وہ اس چیز کو نظر انداز نہیں کرتے کہ جہاں مسلمانوں کی لگ بھگ تمام مذہبی تنظیمیں لوگوں کو محرم کے دوران اتحاد ویگانگت کی جوت جگانے کا پیغام دیتی ہیں وہیں مزاحمتی اکائیاں مسلک اور مشرب سے بالاتر ہوکر عزاداروں کے جلوسوں میں شانہ بشانہ شرکت کرکے عوام الناس کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ چاہئے حکومت اپنی پالیسی کے جواز میں کوئی بھی خیالی قلعہ  بنائے، یومِ عاشورہ کے حوالے سے نقص ِ امن اور عدم تحفظ جیسے شبہات محض واہمے ہیں ۔ باایں ہمہ بجائے اس کے کہ ریاستی حکومت عاشورہ کے جلوسوں کا پُرامن اہتمام یقینی بنانے کی ضمن میں حسنِ انتظام اور فہم وتدبر کا مظاہرہ کرکے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتی جیسے مثلاً امرناتھ یاتراور میلہ کھیر بھوانی وغیرہ کے مواقع پر اُس کا ہر سال معمول رہتاہے ،وہ اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ کھڑی ہوتی ہے ۔یاترا ہو یا میلہ ہر دوموقع پرتمام تر گمراہ کن افواہوں کے باوجود یہ دھارمک تقریبات عوام کے تعاون اور حکومتی انتظامات کے سبب جس طرح حسن وخوبی سے انجام پاتے ہیں ، شردھالوں کی نظر میں وہ کشمیر کی مذہبی رواداری اور کشمیریوں کی اعتدال نوازی پر دلالت کرتاہے ۔ یہاں تک کہ اِس بناء پر کشمیر کے ازلی رقیب تک کشمیریوں کی سیکولرمزاجی کی قسمیں کھاتے ہیں ۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ جب کشمیر کی مسلم اکثریت ہرنوع کی اشتعال انگیزیوں کے باوجود کسی کے کسی دین دھرم سے کوئی تعارض ہی نہیں کرتی تو اپنے ہی مسلم بھائیوں کے وہ درپئے آزارکیوں کر ہوسکتی ؟ بہرحال یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کامیاب حکومتیں اصولاً اپنی پالیسیوں کا مدار وہم وگمان پر نہیں رکھتیں بلکہ کاروبارِ سلطنت چلاتے ہوئے ہر چیلنج کا مردانہ وارمقابلہ کرتی ہیں۔ ان کے پاس کسی بھی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے مؤثر قوت بھی ہوتی ہے اور ایک واضح لائحہ عمل بھی ۔ لہٰذا وہ شاذ ونادر بھی حالات کا مقابلہ کرنے کی  بجائے راہِ فرار اختیار کرنے کو ترجیح نہیں دیتیں لیکن المیہ یہ ہے کہ کشمیرکی مسلم اکثریت کے تئیں یہاں کے اربابِ اقتدار کی پالیسی خصوصی طورمذہبی معاملات کے حوالے سے خاصی گنجلک اور ناقابل فہم رہی ہے ۔ مثال کے طورپر سرینگر کی مرکزی جامع مسجد میں کئی کئی ہفتوں تک جمعۃ المبار ک کی نماز پر قدغن عائد کرنا،میر واعظ عمرفاروق کو اس مسجد کے منبر سے وعظ ونصیحت کرنے سے روکنا ، حج بیت اللہ جانے والے بعض عازمین کی سی آئی ڈی ویری فکیشن کے نام پر تنگ طلبیاں کرنا ، پاسپورٹ اور سفری دستاویز جاری کرنے کے سلسلے میں غیر ضروری اڑچنیں پیداکرنا وغیرہ وغیرہ ۔ ان سب چیزوں کو اگرمزاحمتی قیادت اصطلاحا ً اپنے مذہبی جذبات کی بے توقیری سے تعبیر کرتے ہیں تواِس کی نفی کرنا مشکل ہے ۔

اسی لایعنی پالیسی کے تسلسل میں اب ہر سال یومِ عاشورہ کے دن کرفیو نافذ کرکے اربابِ حل و عقدحسینیت (ع) کے شیدائیوں کو بلاوجہ ذہنی تعذیب اور جذباتی ہیجان کی سزا دینے کی قابلِ نفرین روایت بن چکی ہے۔اب کی بار آٹھویں محرم کو سرینگر میں پانچ اور 10محرم کو بالترتیب آٹھ تھانوں کے حدودِ اربعہ میں کرفیو کا نفاذ عمل میں لانا ایک ناقابل فہم حکومتی فیصلہ ہی نہیں بلکہ ایک شرمناک کارروائی بھی ہے ۔

ظاہر سی بات ہے کسی بھی مذہب ومسلک کے پیروکار کو جب مذہبی فریضے کی ادائیگی سے تلوار کی نوک پر روکا جائے تو اُس کے ردّعمل میں حکومتی مشینری کے ذمہ داروں پر پھول نہیں برسائے جاسکتے بلکہ اُن کے خلاف دلوں میں نفرت اور بیزاری کا لاوا ہی پک سکتاہے ۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ مستقبل میں جب کبھی حساس نوعیت کے ایسے مذہبی معاملات کا سوال ہو تو مفادِ عامہ اور آزادیٔ مذہب کے وسیع تر پہلوئوں کو من وعن زیر نظر رکھاجائے اور ان حوالوں سے کوئی ایسی پالیسی اختیار نہ کی جائے جس سے لوگوں کے مذہبی جذبات اس قدر مجروح ہوتے ہوں کہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ امام حسین(ع) نے جس ظالمانہ نظام کے خلاف اپنی بے مثال جد و جہدکو پایۂ تکمیل تک پہنچایا وہی نظام آج اُن کے سروں پر جمہوریت کے لبادے میں مسلط ہے ۔

 

کشمیر عظمی