• صارفین کی تعداد :
  • 1066
  • 11/29/2010
  • تاريخ :

واقعہ غدیر کا تحفظ شیعیان اہل بیت (ع) کی شرعی ذمہ داری ہے

آيت ‌اللہ سيدعلی حسينی‌ ميلانی

آيت‌ اللہ سيد علی حسينی‌ ميلانی نے کہا: واقعہ غدیر کت تحفظ شیعیان اہل بیت (ع) کے کندھوں پر ایک شرعی فریضہ ہے لہذا ہر شخص اپنی قوت و اہلیت کے مطابق قلم، بیان اور مال و دولت اور فکر یا مجالس کے انعقاد کے ذریعے اس حدیث کا تحفظ کرے۔

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ قم کے استاد، آيت‌اللہ سيدعلی حسينی‌ميلانی، ـ جو غدیر کانفرنس میں شرکت کے لئے مشہد مقدس کے دورے پر ہیں ـ نے کہا: آپ ہرگز تصور نہ کریں کہ چند محفافل و مجالس کا انعقاد غدیر کی تکریم کے لئے کافی ہے بلکہ اس واقعے کے تحفظ کے لئے اس سے کہیں زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا: ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کی امامت و ولایت کے دلائل کا تحفظ کرے اور دین کے تحفظ سے مراد یہ ہے کہ ہم خود بھی ان دلائل سے آگہی حاصل کریں اور ان دلائل کی دلالت کا ادراک بھی کریں اور سمجھ بھی لیں اور خاص طور پر ان کی ترویج و تبلیغ بھی کریں۔

انھوں نے کہا: امیرالمؤمنین علیہ السلام کی امامت کے دلائل ہر زمانے اور ہر مقام پر شیعہ معاشروں کے مدنظر رہنے چاہئیں۔

آیت اللہ میلانی نے کہا: حدیث غدیر ایسی خصوصیات کی حامل ہے جن کی وجہ سے امیرالمؤمنین (ع) بذات خود اور ائمہ اطہار (ع) اور شیعہ اکابرین نے پوری تاریخ میں غدیر کا اہتمام کیا ہے اور حدیث غدیر کسی بھی غیر معتبر کتاب میں نقل نہیں ہوئی بلکہ صرف معتبر کتب نے اس حدیث کو نقل کیا ہے؛ یہ حدیث متواتر ہے اور کوئی بھی اس پر خدشہ وارد نہیں کرسکتا اور اگر کوئی حتی کہہ دے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا خبرِ واحد ہے تو اس کا دعوی باطل ہوگا۔

انھوں نے کہا: ہم ہمیشہ بحث کے لئے تیار تھے اور ہیں اور مناظرات کا خیر مقدم کرتے ہیں اور بحث و غور اور مناظرے کے انعقاد میں کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں ہے تا ہم یہ مناظرہ، مناظرے کے اصولوں اور قواعد و ضوابط کے مطابق ہونا چاہئے۔

انھوں نے کہا: حدیث غدیر کی دلالت پر بعض لوگوں نے بعض خدشات وارد کئے ہیں اور ان خدشات میں علمی پہلو بھی پایا جاتا ہے چنانچہ ان شبہات و خدشات کا جواب دینا چاہئے۔

آیت اللہ میلانی نے کہا: شیخ مفید اور سید مرتضی جیسے بزرگ حدیث غدیر کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے اور ان دو اکابرین نے معتزلہ اور اشاعرہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے شبہات و اعتراضات کا جواب دیا ہے۔

انھوں نے کہا: اشاعرہ اور معتزلہ کا اہم ترین شبہہ یہ ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ "مولا" سے "اولی" مراد نہیں ہے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ حدیث غدیر صرف اس وقت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت پر منتج ہوتی ہے کہ مولا سے اولی مراد لیا جائے تا ہم ان کے اس اعتراض کا جواب قرآن مجید میں تھوڑے سے غور سے ہی مل جاتا ہے۔

آیت اللہ میلانی نے کہا: ائمہ معصومین علیہم السلام کی تشریعی ولایت کی اہم ترین دلیل حدیث غدیر ہے اور "نفحات الازہار" نامی کتاب میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کی بلافصل خلافت پر اس حدیث کی دلالت تفصیل سے بیان ہوئی ہے اور مختلف تفاسیر میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ وہی ولایت ـ جو قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے قائل ہے ـ حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت ہے۔

انھوں نے کہا: حدیث غدیر کی بعض خصوصیات اہل سنت کے نزدیک بھی اس حدیث کی اہمیت کا باعث بنی ہوئی ہیں البتہ کچھ تأویلی اور توجیہی افراد بھی تھے اور اب بھی ہیں جو پوری قوت سے کوشش کررہے ہیں کہ اس حدیث کو کلی طور پر بھلادیا جائے۔

آیت اللہ میلانی نے کہا: خطبہ غدیر کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ خطبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وصال کے ایام کے بالکل قریب تھا اور ایسے لوگوں کے سامنی پڑھا گیا جنہیں بعد میں رسول اللہ (ص) کی بارگاہ میں حاضر نہیں ہونا تھا۔ اس واقعے کے دوران قرآن مجید کی چار آیتیں نازل ہوئی ہیں جن میں سے تین آیتیں فریقین کے درمیان متفق علیہ ہیں؛ اور ان ہی آیات کریمہ میں سے ایک سورہ مائدہ کی آیت 67 ہے؛ جہاں ارشاد ہوا ہے کہ: "َیا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْكَ؛ اے میرے نبی جو کچھ آپ کے پروردگار کی جانب سے آپ پر نازل ہوا اس کا ابلاغ کریں"۔

انھوں نے کہا: واقعہ غدیر کی دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ غدیر خم کے مقام پر اکابرین صحابہ نے امیرالمؤمنین (ع) کو مبارکباد دی ہے اور یوم غدیر کی ایک خصوصیت رسول اللہ (ص) کے شاعر خاص "حسان بن ثابت" کی شاعری ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو ان کی شاعری حفظ کرنے کی ترغیب دلائیں جیسا کہ ہمارے نوجوانوں کو خطبہ غدیر اور خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا بھی حفظ کرلینا چاہئے۔

آیت اللہ میلانی نے کہا: غدیر اور مولا علی علیہ السلام کی مظلومیت، غدیر کی تیسری اہم خصوصیت ہے اور اس مظلومیت کی خصوصیت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے اس حدیث کو خفیہ رکھنے اور چھپانے پر اصرار کیا جن میں کچھ لوگ تو تقیہ کی وجہ سے اسے چھپائے رکھنے پر مجبور ہوئے لیکن اکثریت نے ارادی طور پر دشمنی اور معاندت کی بنا پر اسے چھپائے رکھا۔

انھوں نے کہا: غدیر کی مظلومیت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اہل سنت کے کئی بزرگ علماء نے حدیث غدیر کی اسناد کے سلسلے میں مستقل کتابیں تألیف کی تھیں لیکن وہ کتابیں بالکل ناپید اور نایاب ہیں اور ہمیں نہیں معلوم کہ ان کتابوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ اور اہل سنت کی علماء نے نہ صرف ان کتابوں کو شائع نہیں کیا ہے بلکہ ان کے قلمی نسخوں کا اتہ پتہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

آیت اللہ میلانی نے معاندین کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام اور ان کی تاریخ سے متعلق کتب کو نیست و نابود کئے جانے جیسے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہی ولایت جو اللہ نے رسول اللہ (ص) کے لئے قرآن مجید میں قرار دی ہے غدیر خم کے مقام پر علی علیہ السلام کے لئے بھی قرار دی گئی ہے چنانچہ اس روز لوگوں سے بیعت لی گئی اور اکابرین صحابہ نے امیرالمؤمنین (ع) کو مبارکباد پیش کی۔