• صارفین کی تعداد :
  • 3022
  • 11/13/2010
  • تاريخ :

اولاد کی تربیت میں محبت کا اظہار

اولاد

محبت لوگوں میں میل ملاپ اور یکجہتی کا سبب ہے۔ اگر محبت کا جزبہ نہ ہوتا تو لوگوں میں انس و محبت نہ ہوتی، کوءی بھی انسان کسی دوسرے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوتا اور ایثار و قربانی جیسے لفظوں کا وجود نہ ہوتا۔

محبت و الفت پیدا کرنے والے کام تمام انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ خاص طور پر تعلیمی و تربیتی اداروں کے لیے، اس لیے کہ محبت ہی ایسی شی ہے جو جسم و روح کی سلامتی کے ساتھ ساتھ انسان کی اخلاقی براءیوں اور کمزوریوں کی اصلاح اور بہبود روابط کا ذریعہ بنتی ہے۔

خداوند عالم نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اپنی محبت کا ذکر فرمایا ہے:

فان اللہ یحب المتقین (سورہ آل عمران آیہ ۷۶) اللہ متقین کو دوست رکھتا ہے۔

فان اللہ یحب المحسنین (سورہ آل عمران آیہ ۱۳۸) اللہ نیک عمل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

انسانوں سے رابطہ کی زبان، خاص طور پر بچوں سے رابطہ کی زبان محبت ہونی چاہیے۔ غصہ و تندی و سختی سے کسی کی تربیت نہیں کی جا سکتی۔

تربیت میں محبت کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ محبت، اطاعت سکھاتی ہے اور محبت والے ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: والمرء مع من احب۔ انسان اس کا ساتھ دیتا ہے جسے پسند کرتا ہے۔

محبت و اطاعت میں معیت (ساتھ رہنا) کا رابطہ پایا جاتا ہے، محبت کے ظہور کے ساتھ اطاعت و ہمراہی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر بچے کے دل میں والدین کی محبت بیٹھ گءی تو بچہ ان کا مطیع و فرماں بردار بن جاءے گا اور اس کے اوپر جو ذمہ داریاں ڈالی جاءیں گی وہ ان سے نافرمانی نہیں کرے گا۔

محبت، بچوں کی ذہنی نشو و نما اور روحی تعادل کے مھم اسباب میں سے ہے۔ ان کی ذاتی خوبیاں اور سلوک کافی حد تک محبت کی مرہون منت ہیں جو انہیں اس تربیت کے دوران ملی ہے، گھر کی محبت بھری فضا اور محبت سے مملو ماحول بچوں میں نرم جذبات اور فضال کے رشد کا سبب ہے جو بچے محبت بھرے ماحول میں تربیت پاتے ہیں وہ کمال تک پہچتے ہیں ، اچھتے ڈھنگ سے سیکھتے ہیں اور دوسروں سے محبت کرتے ہیں اور سماج و معاشرہ میں بہتر انسانی اقدار کے حامل ہوتے ہیں ۔ مہر و محبت ہی ہے کہ جو زندگی کو پر لطف اور با معنا بنتی ہے اور بچوں کی استعداد کی شگوفاءی اور ظہور کا سبب بنتی ہیں اور اس میں سعی و کوشش اور تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرتی ہیں۔

محبت کی بنیاد، بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کرنا، بنیادی انسانی اور اسلامی طریقوں میں سے ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بچوں سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے اور ان سے اچھا سلوک کرتے تھے اور ہمیشہ فرماتے تھے:

احبوا الصبیان وارحموھم ۔

بچوں سے محبت کرو اور ان کے ساتھ الفت و محبت سے پیش آو ۔

والدین کو چاہیے کہ وہ قلبی طور پر اپنے عمل سے بچوں کو یہ یقین دلاءیں کہ وہ انہیں دوست رکھتے ہیں، ان کی یہ بات بچوں پر مثبت اثر ڈالے گی اور کچھ ہی عرصہ میں اس کا نتیجہ سامنے آ جائے گا۔

والدین، بچوں میں ایسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں جو ان کی ذات کو تعمیر کرے اور مخصوص اعتقادات ان کے اندر جنم لیں تو ظاہر ہے کہ یہ کام بغیر محبت اور دوستی کے کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ جس کا مقصد انہیں رشد و کمال کی طرف لے جانا ہے۔

بشکریہ : سید ناصر هاشمی


متعلقہ تحریریں:

بیٹی  رحمت ہے

رسم و رواج سے پاک ازدواج

ازدواجی اخراجات

ازدواجی مشکلات اور ان کا حل

اسلام اورخواھشات کی تسکین

شادی کی پیشکش

ازدواجي زندگى

جديد جنسي اخلاق کے حاميوں کے نظريات

ہمارے معاشرے میں  جہیز ایک المیہ

اسلام  میں طلاق

دنيا ميں ’’خانداني‘‘ بحران کي اصل وجہ!